’’تم میں سے ہرایک کےلیے ہم نےایک راستہ اورایک طریقہ مقرر کیاہے اوراگراللہ چاہتا توتمہیں ایک امت بنادیتا لیکن (یہ اس لیے ہے۔ تاکہ )وہ تمہیں اس چیز میں آزمائے ،جواس نےتمہیں دیاہے ،بس نیکیوں میں ایک دوسرے سےآگے بڑھو،اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کرجانا ہے،پھر وہ تمہیں بتائےگا جن باتوں میں تم اختلاف کیاکرتےتھے۔‘‘ اس آیت مبارکہ سےپہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےفرمایاگیاہے کہ آپ چاہیں تواہل کتاب کےمابین خداکےنازل کردہ احکام کےتحت فیصلہ فرمائیں یا ان سےاعراض کارویہ اپنائیں، آپ اس باب میں مختار ہیں۔ پھر یہ واضح کیاہےکہ خدا نےامت محمدیہ اوراہل کتاب میں سےہرایک کےلیےالگ الگ شریعت اورمنہاج مقرر کیاہے۔ اس سے مراد عملی وفروعی احکام ہی ہوسکتےہیں کیونکہ توحید پر تمام انبیاء ورسل متفق ہیں ۔ 3۔عقائد واحکام عملیہ قرآن مجید میں لفظ ’’الشریعة‘‘ کااطلاق بیک وقت عقیدہ اورعملی احکام پربھی ہواہے۔ سورۃ الجاثیہ میں ارشاد ربانی ہے: ﴿ ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰى شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [1] ’’پھر ہم نے آپ کودین کےمعاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سواسی پر چلیے اوران لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیے جونہیں جانتے۔‘‘ یہاں شریعت سےمراد وحی ہےجوکتاب وسنت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ وحی توحید اورتمام احکام كو شامل ہےاورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوہردوکی اتباع وپیروی کاحکم دیاگیاہے ۔ شریعت علماء کےاطلاقات کی روشنی میں ارباب علم ونظر کےہاں بھی شریعت کالفظ متنوع معانی میں استعمال ہواہے۔ بعض اس سےعقیدہ مراد لیتےہیں اوربعض محض عملی وفروعی احکام۔ جبکہ ایک گروہ کےنزدیک توحید وعقیدہ اورفروعی فقہی احکام ہردوشریعت میں داخل ہیں اوران دونوں پر لفظ شریعت کااطلاق ہوتاہے۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں : الف: امام ابوبکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ (شافعی فقیہ وعالم،متوفی 360ھ) نےلفظ شریعت سےعقیدہ اوراس کی تفصیلات مراد لی ہیں۔ چنانچہ اسلامی عقائد کےموضوع پر انہوں نےجوکتاب تصنیف کی ہے اس کانام ’’الشریعۃ ‘‘ رکھا ہے۔ اسی طر ح امام ابو عبداللہ عبیداللہ بن محمد العکبری رحمہ اللہ (مشہور حنبلی فقیہ وعالم، متوفی 387ھ)نےبھی عقائد کےموضوع پر اپنی کتاب کو ’’الإبانة عن شریعة الفرقة الناجیة‘‘کانام دیا ہے۔ یہاں لفظ ’’شریعة‘‘ عقیدہ |