Maktaba Wahhabi

109 - 114
نصوص میں جمع نہیں کرپاتے، تو وہ اپنے فہم کے اعتبار سے ترجیح کے طرق پر چلتے ہوئے درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں: ۱۔ بسا اوقات کسی بات کو راویوں کا وہم کہہ دیتے ہیں۔ ۲۔ یا کہہ دیتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے جس کی نسبت شریعت کی طرف کرنے کے بجائے راویوں کی طرف کرنی چاہیے۔ یا کہتے ہیں کہ یہ روایت متروک یا منکر ہے۔ ۳۔ یا کہتے ہیں کہ روایت میں بیان کردہ بات محل اشکال ہے وغیرہ اس قسم کے تمام اقوال راوی پر جرح وتعدیل کے ضمن میں نہیں آتے کیونکہ راوی کے بارے میں اس قسم کا فیصلہ اصل کے اعتبار سے نہیں بلکہ تعارض کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راوی کی طرف ان امور کے قبیل سے اس قسم کی نسبت سے محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں بالاتفاق راوی ضعیف نہیں ہوتا بلکہ روایت پر ضعف(یعنی ضعف لغوی، جسے اصطلاحات محدثین میں توقف اورمرجوح یا شاذ یا معلول وغیرہ کے لفظ سے بیان کیا جاتا ہے) کا فیصلہ کیا جاتا ہے اوراگر کوئی دوسرا عالم اس تعارض کو ویسے ہی حل کردے تو پھر راوی کی طرف ایسی نسبت ازخود اضافی قرار پاجاتی ہے۔ مشکل الآثار یا مختلف الحدیث کے موضوع پر جن محدثین عظام رحمہم اللہ نے کام کیا ہے ان میں سے کئی محدثین کرام کا دعوی ہے کہ ذخیرہ حدیث میں کوئی حدیث بھی دوسری حدیث سے متعارض نہیں۔ جیساکہ اِمام احمد رحمہ اللہ (متوفیٰ 241 ھ) اور اِمام ابن خزیمہرحمہ اللہ (متوفیٰ 311ھ) وغیرہ جیسے آئمہ کا عویٰ ہے کہ ایک بھی ایسی صحیح روایت پیش نہیں کی جاسکتی کہ جو دوسری صحیح روایت سے ٹکراتی ہو، اگر کسی کو کسی روایت کے بارے میں اشکال ہے تو لاؤ اسے ہم جمع کرکے دکھاتے ہیں۔ [1] البتہ اصول یہ ہے کہ اگرکوئی دو روایات کو محدثین عظام رحمہم اللہ جمع نہ بھی کرپائیں تووہ انہیں ضعیف کہے بغیر (توقف فرماتے ہوئے) دیگر علماء کے لئے میدان چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان روایات کا کوئی حل پیش کر دیں۔ واضح رہے کہ بعض محدثین رحمہم اللہ مختلف صحیح روایات میں جمع وتوفیق کے جو متعدد طریقے اختیار کرتے ہیں یا ایک محدث ترجیح دیتا ہے ، لیکن دوسرا جمع کردیتا ہے، تو یہ ساری بحث تحقیق حدیث کے موضوع سے خارج ہے اور تاویل حدیث کا موضوع ہے۔چنانچہ ترجیح وغیرہ کی مباحث کے باوجود روایت صحیح رہتی ہے، ضعیف نہیں ہوجاتی۔ چنانچہ یہ سارے نکات بعد از وقوع کے قبیل کی چیزیں ہیں، شریعت کی نصوص نہیں! اس لیے فہم وتدبر
Flag Counter