Maktaba Wahhabi

108 - 114
رائے ہو توکیسے قبول کیا جائے گا؟یقیناًاَئمہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے قابل قبول ہوگی اور یہ رائے اس لیے بھی قابل ترجیح ہوگی،کیونکہ اس پر عمل کرنے سے ایک صحیح حدیث کی تردید لازم نہیں آتی جبکہ اکیلے امام مالک رحمہ اللہ کی رائے پر عمل سے صحیح حدیث کی تردید لازم آتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معترض نے جہاں سے اعتراض نقل کیا ہے وہاں کتاب کے مؤلف نے اس کا حل بھی نقل کیاہے اور جمہور کے مؤقف کی ہی تائید کی ہے مگر معترض نے اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے محض اپنے مطلب کی ایک بات نقل کر لی ہے جسے علمی خیانت کے سوا اور کیا کہا جا سکتاہے؟ امام ابن رشد رحمہ اللہ (متوفیٰ 595ھ) نے امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر آئمہ کا قول نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس حدیث کی صحت کی وجہ سے اس کے مطابق بات کرنا ہی زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ یہ روایت اصل(یعنی گھریلو جانور کو ذبح یا نحر اور وحشی جانور کو کسی بھی طرح خون بہاکر)سے مستثنیٰ ہو مزید یہ کہ کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو اس مسئلے میں اصل کی ہی حیثیت رہتی ہے اور وہ اس طرح کہ بعض جانوروں کے حق میں کسی بھی طرح خون بہانے کو ذبح قرار دینے کی علت اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں کہ ان پر قابو پانا محال ہے نہ محض یہ کہ وہ جنگلی جانور ہیں تو جب یہی چیز پالتو جانور میں بھی آجائے تو اسے بھی جنگلی کی طرح ذبح کرنا درست ہوا۔ یوں قیاس اور سماع دونوں متفق ہوجاتے ہیں۔ [1] امام ابن رشد رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ جنگلی جانور کا کسی بھی طرح خون بہانے کی اجازت محض اس لیے نہیں کہ وہ جنگلی ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس پر قابو پانا محال ہے تو جب گھریلو پالتو جانوروں کی بھی یہی حالت ہو جائے تو ان کا بھی وہی حکم ہوگا۔ اس طرح نہ تو کسی چیز کے استثناء کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی حدیث کی تردید کی اور اشکال بھی زائل ہوجاتا ہے لہٰذایہی بات زیادہ مناسب ہے۔ خلاصہ کلام اوپر ذکر کی گئی تمام احادیث کے بارے میں جو چیز دوران تحقیق سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے پیش کیے جانے والے مذکورہ تمام اقوال کو نقل کرنے میں’اہل درایت‘ کی علمی دیانت کا عالم یہ ہے کہ ان اقوال کو انہوں نے جن مصادر کے حوالے سے پیش کیا ہے، وہاں ان اقوال کو مؤلفین لائے ہی اس لیے تھے کہ ان کا حل نقل کریں، لیکن ان لوگوں نے اپنے مطلب کی بات وہاں سے اخذ کرلی اور وہ جوابات چھوڑ دیے، جو وہاں مؤلفین نے ان اقوال کو ذکر کرکے تفصیلا ًذکر کیے تھے۔ صحیحین وغیرہ کی مذکورہ روایات میں سے اکثر میں عموما نظر آرہا ہے کہ جب بعض اہل علم دومتعارض صحیح
Flag Counter