Maktaba Wahhabi

106 - 114
اور اگر بالفرض روایت صحیح بھی ہوتی تب بھی یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بالعموم اجماع کے دعوے جھوٹے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ ’’من ادعی وجود الاجماع فهو کاذب.‘‘ ’’جس نے اجماع کے وجود کا دعوی کیا وہ جھوٹا ہے۔‘‘ [1] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ان ادعاء الاجماع في کثیر من خاص الاحکام لیس کما یقول من یدعیه.‘‘ ’’بہت سے خاص احکام میں اجماع کا دعویٰ اس طرح نہیں ہوتا جیسے مدعی نے کیا ہوتا ہے۔‘‘ [2] ’’قاضی ابوبکر علی نے بھی بالعموم وقوع اجماع کے تصور کا انکار کیا ہے۔‘‘ [3] البتہ اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر اجماع کا دعویٰ کلیات دین سے متعلقہ ہو تو پھر وہ درست قرار دیا جائے گا، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ ان جملہ فرائض پر ہی اجماع شمار کرتے ہیں جن کا کوئی شخص بھی منکر نہ ہو جیسے پانچ نمازوں کی فرضیت، زکوۃ، روزہ اور حج کی فرضیت اور جہاد وقتال کی مشروعیت وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مناظرے میں اپنے مخالف سے کہتے ہیں: یہ ہے وہ اجماع جس کے متعلق اگر تم کہو کہ ہوگیا تو کسی کو بھی یہ کہتے ہوئے نہیں پاؤ گے کہ یہ اجماع نہیں۔ [4] امام شوکانی رحمہ اللہ نے امام جوینی رحمہ اللہ کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے کہ انہوں نے کلیات دین اور ظنی مسائل کے مابین فرق کرتے ہوئے کہا کہ کلیات دین پر تو اجماع ممکن ہے جبکہ ظنی و فرعی مسائل پر اجماع کا بالعموم تصور بھی محال ہے۔ [5] خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے حدیث قلتین کے برخلاف جس اجماع کا دعویٰ کیاہے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ اجماع ثابت ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اجماع ثابت بھی ہو تب بھی کسی خبر صحیح کا ناسخ نہیں ہوتا بلکہ ناسخ خبر کا پتہ دیتا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی اس سلسلہ میں اجماع کی بنیاد کے بطور ایک روایت ہی ذکر کی ہے، لیکن وہ روایت ثابت نہیں اور چوتھی بات یہ ہے کہ اگر بالفرض یہ روایت ثابت
Flag Counter