17۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ((إذا کان الماء قُلَّتین)) [1] اشکال اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ روایت اجماع کے خلاف ہے۔ [2] حل اس اعتراض کا جواب چند نکتوں میں ملاحظہ فرمائیے: پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کوئی اجماع ہوا ہی نہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آراء مختلف ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، کے متعلق مروی ہے کہ وہ پاکی اورناپاکی کے حوالہ سے قلیل وکثیر پانی کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے، جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما قلیل اور کثیر پانی کے درمیان فرق کے قائل تھے۔ [3] لہٰذا صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین ایسا کوئی اجماع تھا ہی نہیں کہ پانی اگر قلتین سے زیادہ ہو تب بھی مجرد نجاست گرنے سے ہی ناپاک ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض اجماع ثابت بھی ہو تب بھی وہ کسی خبر وروایت کا ناسخ نہیں بن سکتا بلکہ اس کی حیثیت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ کسی نسخ کا پتہ دیتا ہے یعنی ایسی روایت کی طرف اشارہ کر رہا ہوتاہے جو حقیقت میں ناسخ ہوتی ہے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں ایک گروہ کی طرف اشارہ کیاہے( جن کا مؤقف یہ تھا کہ اجماع سے کتاب وسنت منسوخ ہوسکتے ہیں)پھر ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’ہم ان حضرات کی بات کی یہ تاویل کیا کرتے تھے کہ ان کی مراد یہ ہے کہ اجماع سے کسی ناسخ نص کا پتہ چلتا ہے لیکن بعض لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہ لوگ خود اجماع کوناسخ مانتے ہیں۔ اگر ان کی مراد واقعی یہ ہے تو یہ ایک ایسا قول ہے جس سے مسلمانوں کے لیے جائز قرار پاتا ہے کہ وہ اپنے نبی کے بعد اپنے دین میں جو چاہیں تبدیلی کر لیں جیسا کہ نصاری یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے علماء کیلئے جائز قرار دیا ہے کہ جس چیز کے حرام ٹھہرانے میں وہ کوئی مصلحت سمجھیں اسے حرام قرار دے دیں اور جس چیز کے حلال ہونے میں کوئی مصلحت |