کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ روایات میں واقع ہونے والی گڑ بڑ کا حال معلوم ہے۔ خلاصہ یہ ہے كہ حضرت حسان کی طرف قذف کی نسبت میرے نزدیک خلاف تحقیق ہے۔ اسی طرح ان کو والذی تولی کبرہ کا مصداق قرار دینا میرے نزدیک بالکل بے بنیاد ہے۔‘‘ حل اس اعتراض کا جواب ہم درج ذیل نکات کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس روایت کی تردید میں محض اپنی رائے پیش کی ہے، اور محض ذاتی رائے کی بنیاد پر کسی بھی حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ وہ روایت صحیح ثابت ہو۔ جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ (متوفیٰ 279ھ) نے اسے نقل کرنے کے بعد خود فرمایا ہے کہ یہ حسن صحیح ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر محض اسے اس وجہ سے ضعیف قرار دیا جائے کہ اس میں حضرت حسان بن ثابت کوسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شمار کیا گیا ہے تو اس بات کا ذکر تو صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔[1] (جس کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے) تو کیا اسے بھی رد کر دیا جائے گا؟ تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کی تعریف وتوصیف کرتا ہے تو کیا ممکن نہیں کہ کبھی وہ کسی کے بہکاوے میں آکر اسی کی توہین بھی کر دے۔ یقیناًیہ ممکن ہے اور فرمان نبوی کے مطابق تو انسانی دل اسی سے کہیں زیادہ تبدیل ہونے والا ہے۔ جیسا کہ فرمایاکہ ’’مثل القلب مثل الريشة تقلبها الرياح بغلاة. ‘‘ ’’دل کی مثال ایک پر کی سی ہے، جسے ہوائیں چٹیل میدان میں الٹتی پلٹتی رہتی ہیں۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ [2] شیخ شعیب الارناؤوط نے بھی صحیح کہا ہے۔ [3] علاوہ ازیں اعتراض میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ ’حسان‘ کو ﴿ وَ الَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ﴾ کا مصداق قرار دینا میرے نزدیک بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مسروق کی حدیث میں صراحۃً ایسی کوئی بات مذکور نہیں |