Maktaba Wahhabi

98 - 114
6۔ رسول کا فریضہ: ’’اتمام حجت‘‘ یا’’اقامت حجت‘‘ ؟ رسول اس دنیا میں اللہ کا پیغام لے کر آتے ہیں، اور اللہ کے بندوں پر حجت قائم کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے مناسب عنوان ’’اتمام حجت‘‘ نہیں بلکہ ’’اقامت حجت‘‘ ہے۔ یہ حجت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت سے ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جس تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ جائے، چاہے ان کے زمانے میں یا چاہے ان کی رحلت کے بعد۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا﴾ [1] ’’اور ہم نے رسول بھیجے جو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے تا کہ لوگوں کے لیے اللہ پر رسولوں کے آنے کے بعد کوئی حجت باقی نہ رہے۔ اور اللہ عز وجل غالب حکمت والا ہے۔‘‘ 7۔ ’’ اقامت حجت‘‘ کی دو بنیادیں: ’’دعوت رسول‘‘ اور ’’بلاغ قرآن‘‘ پس حجت جس طرح رسول کی دعوت سے قائم ہوتی ہے، اسی طرح کتاب اللہ کے پہنچنے سے بھی قائم ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ اُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَن بَلَغَ [2] ’’اور میری یہ قرآن مجید وحی کیا گیا ہے تا کہ میں اس سے ذریعے تم کو ڈرا دوں اور اس کو بھی جس کو یہ قرآن مجید پہنچ جائے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں’’من بلغ ‘‘ کا عطف ضمیر منصوب پر ہے اور اس کا معنی یہ بنتا ہے کہ جس طرح قرآن مجید رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطبین کے لیے ان کے حق میں حجت بن رہا تھا، اسی طرح ان لوگوں کے حق میں بھی حجت ہے جن تک یہ قیامت تک پہنچے گا۔ اگر محترم غامدی صاحب کی اصطلاح’’اتمام حجت‘‘ ہی کو لے لیں تو ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر اللہ کی کتاب بھی لوگوں کے حق میں ’’اتمام حجت‘‘ نہیں بنتی تو اس کے ’’میزان‘‘ ہونے کے چہ معنی دار؟ آپ نے اہل اسلام کے حق میں اسے ’’فرقان‘‘ تو بنا ہی لیا ہے، اب غیر مسلموں کے لیے بھی تو کم از کم’’میزان‘‘ اور ’’حجت قاطعہ‘‘ تو مان ہی لیں۔ اور اگر قرآن مجید غیر مسلموں کے حق میں آخرت کی ابدی عذاب کے باب میں ’’میزان‘‘ اور ’’حجت قاطعہ‘‘ بن سکتا ہے تو دنیا وی سزا کے لیے ’’اتمام حجت‘‘ کیوں نہیں؟
Flag Counter