کی تاریخ کا نصف بلکہ اس سے بھی زائد تو بنی اسرائیل کے رسولوں ہی کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ اور بنی اسرائیل نے صرف رسولوں کو جھٹلایا نہیں بلکہ قتل بھی کیا ہے جبکہ پچھلی اقوام نے تو محض جھٹلایا تھا۔ پس وہ قومیں کہ جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی اور وہ قومیں کہ جنہوں نے تکذیب کے بعد ان کو قتل بھی کر دیا تو کیا دونوں کا جرم برابررہا؟ ہر گز نہیں۔ پس بنی اسرائیل کا جرم ، قوم نوح، قوم عاد ، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب علیہم السلام سے بہت بڑھ کر ہے لیکن ان پر کوئی’’ عذاب استیصال‘‘ نازل نہیں ہوا؟ پس تاریخی حقیقت یہی ہے کہ جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کا انکار کیا تو ان پر کبھی رسول ہی کی زندگی میں عذاب نازل ہوگیا اور کبھی انہیں مہلت اور ڈھیل دے دی گئی۔ اسی طرح حضرت ابراہیم کی قوم کا ذکر تورات اور قرآن مجید دونوں میں ہے لیکن دونوں مصاحف نے ان کی قوم پر کسی عذاب کا ذکر نہیں کیا ہے جبکہ قوم کے لوگوں نے اپنے تئیں ابراہیم کو آگ میں ڈالنے جیسی گستاخی بھی کر ڈالی ۔ اس کے برعکس حضرات ابراہیم ہی کے معاصر اور بھتیجے حضرت لوط اور ان کی قوم پر آنے والے عذاب کا ذکر تفصیل سے تورات اور قرآن مجید دونوں میں موجود ہے۔ پس یہی عرض کرنا مقصود ہے کہ یہ کہنا کہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ جب کوئی قوم کسی رسول کا انکار کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ رسول ہی کی زندگی میں یا اسی کے ہاتھوں ضرور اس قوم پرعذاب استیصال نازل کرتے ہیں، تو یہ مقدمہ قرآن مجید سے کم از کم ثابت نہیں ہوتا ہے۔ پس بعض رسولوں کی قوموں پر انکار کے بعد رسولوں ہی کی زندگی میں عذاب نازل ہوا اور بعض پر نہیں ہوا۔ اور بعض ایسی بھی تھیں کہ جن میں ایک سے زائد رسول بھیجے گئے اور پہلے یا دوسرے کے انکار پر عذاب نازل نہ ہوا بلکہ ڈھیل دی گئی اور تیسرے رسول کے انکار پر قوم پر عذاب نازل ہو گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِاِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ٭اِذْ اَرْسَلْنَا اِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْا اِنَّا اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ﴾ [1] ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کے سامنے اس بستی کے احوال بیان کریں کہ جن کے پاس رسول آئے۔ جب ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے تو انہوں نے ان دونوں کو جھٹلا دیا، پس ہم نے ان دونوں کو تیسرے رسول سے تقویت بخشی۔ پس ان تینوں نے کہا : یقیناً ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔‘‘ محترم غامدی صاحب اس طرح کے ہر اعتراض کے جواب میں ایک استثناء بیان کر دیتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جتنے استثناء ات انہوں نے ’’اتمام حجت‘‘ کے قانون کو ثابت کرنے کے لیے قائم کر دیے ہیں تو ان کی فہرست کو اگر جمع کریں تو معلوم ہو گا کہ ان استثناءات کے حجم کے سامنے ’’اتمام حجت‘‘ خود ایک اچھا خاصا استثناء بن سکتا ہے۔ |