Maktaba Wahhabi

96 - 114
’’اور اگر اللہ نے ان کے بارے جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تو انہیں لازما دنیا میں ہی عذاب دیتا۔ اور ان کے لیے آخرت میں آگ کا عذاب ہے۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَدَعَ إِلَّا مُسْلِمًا)) [1] ’’میں یہود ونصاری کو جزیرہ نما عرب سے ضرور نکال کر رہوں گا یہاں تک کہ یہاں صرف اورصرف مسلمان ہی باقی رہ جائیں۔‘‘ پس ’’قتل‘‘ اور ’’جلا وطنی‘‘ دو مختلف سزائیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ دونوں سزاوں کا سبب بھی ایک نہ تھا بلکہ مختلف تھا۔ ’’قتل‘‘ کا سبب ’’نقض عہد‘‘ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہود کے قبیلہ بنوقریظہ کے ’’نقض عہد‘‘ پر بھی ویسی ہی سزا جاری کی گئی جیسی مشرکین مکہ کے بارے میں سورۃ توبہ کے شروع کی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ سورۃ توبہ کے شروع میں جن مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا، وہ مشرکین عرب نہیں بلکہ وہ مشرک قبائل تھے کہ جن سے مسلمانوں کے معاہدے قائم تھے اور انہوں نے وہ معاہدے توڑ دیےتھے۔ 5۔ کیا ہر رسول کی قوم پر عذاب نازل ہوا ہے؟ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ رسول کا انکار کرنے والی اقوام پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا رہا ہے اور یہ ایسا عذاب تھا جو ان اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا چھوڑتا تھا۔ لیکن اس میں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ قرآن مجید میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ہر رسول کی قوم کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوا کہ رسول کے انکار پر اس کی زندگی میں ہی قوم پر عذاب نازل ہوا ہو۔ سب سے زیادہ رسول جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں، وہ یہود ہیں۔ اور یہود نے بہت سے رسولوں کو جھٹلایا بلکہ بعض کو تو شہید بھی کر دیا لیکن ان پر اللہ کی طرف سے کوئی عذاب استیصال نازل نہیں ہوا۔ عذاب استیصال سے مرادایسا عذاب ہے جو کسی قوم کی جڑ ہی ختم کر دے ۔ اللہ عزوجل بنی اسرائیل سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہے: ﴿ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوٰى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ وَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ﴾ [2] ’’کیا پس جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول آیا، وہ چیز لے کر جو تمہارے نفسوں کو اچھی نہ لگی، تو تم نے تکبر کیا۔ اور رسولوں کی ایک جماعت کو تم نے جھٹلا دیا اور دوسری کو تم قتل کرتے رہے۔‘‘ جناب غامدی صاحب نے نبی اسرائیل یعنی یہود کو ’’عذاب استیصال‘‘ سے ایک استثناء قرار دیا حالانکہ رسولوں
Flag Counter