Maktaba Wahhabi

95 - 114
نہ بھی لائے تو کوئی بات نہیں۔ اسے غور وفکر کا موقع دو اور ایسی جگہ پہنچا کر آؤ جہاں وہ امن وامان میں رہے۔ محترم غامدی صاحب سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب فرشتے پچھلی قوموں پر اللہ کے عذاب کا کوڑا لے کر نازل ہوتے تھے تو کیا کسی فرد کو اس قسم کی کوئی سہولت دی جاتی تھی۔ اسی طرح اگر ’’اتمام حجت‘‘ کا نظریہ درست ہوتا تو اللہ کا کلام سنانے کے کیا معنی؟ اور پھر اللہ عزوجل کے یہ کہنے کے کیا معنی کہ’’ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ کا حکم معلوم نہیں ہے۔‘‘ محترم غامدی صاحب سے یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ یہ کیسی ’’اتمام حجت‘‘ ہے کہ جس میں ’’اللہ کا کلام‘‘ بھی نہ پہنچا اور ’’اللہ کا حکم‘‘ بھی معلوم نہ ہو سکا۔ یہ بھی واضح رہے کہ ﴿ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ﴾ صیغہ عام ہے یعنی اس میں عام بات ہو رہی ہے، کسی خاص یا چند افراد کے بارے میں نہیں۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’اتمام حجت‘‘ کے نظریے کی کوئی شرعی تو کجا عقلی بنیاد بھی موجود نہیں ہے۔ 4۔ یہود ونصاری پر اتمام حجت کا معنی ومفہوم؟ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد وقتال اللہ کا عذاب تھا تو اس کے جس قدر مستحق مشرکین مکہ تھے، اسی قدر مدینہ کے یہود بھی تھے۔ لیکن قرآن مجید کا بیان اس بارے واضح ہے کہ اس نے مشرکین مکہ کو تو جزیہ کی آپشن نہ دی جبکہ عرب کے یہود کے لیے جزیہ کی آپشن بھی برقرار رکھی گئی حالانکہ’’اتمام حجت‘‘ تو دونوں پر برابر کی سطح کی تھی۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد وقتال کی وجہ ’’اتمام حجت‘‘ تھی تو مشرکین عرب اور یہود عرب دونوں سے برابر کا سلوک ہوتا، صرف مشرکین عرب ہی اس عذاب کےمستحق کیوں ٹھہرے؟ قرآن مجید میں مشرکین کے بارے تو یہ بیان ہے کہ جہاں ملیں، انہیں قتل کر دو، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ َاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ [1] ’’پس جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو، جہاں بھی تم انہیں پاؤ۔ اور انہیں پکڑو اور انہیں گھیرو اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو۔ پس اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا رستہ چھوڑ دو، بلاشبہ اللہ عزوجل بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘ قرآن مجید کا یہ انداز یہود ونصاری سے جہاد وقتال کے حوالہ سے نہیں ہے کہ جہاں بھی ملیں، انہیں قتل کرو اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو بلکہ ان کی اصل سزا ’’جلا وطنی‘‘ بیان ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَوْ لَا اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَآءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ﴾ [2]
Flag Counter