غامدی صاحب کا بیان ہے تو ’’دنیاوی عذاب‘‘ کے باب میں دوسری سنت الہی یہ ہے کہ عذاب کے نزول کے بعد کسی قسم کا ایمان معتبر نہیں رہتا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اِيْمَانُهُمْ وَ لَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ﴾ [1] ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ دیجیے کہ فیصلے کے دن تو کافروں کو ان کا ایمان کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ہی وہ مہلت دیے جائیں گے۔‘‘ اس قانون سے صرف ایک قوم کا استثناء ہے اور وہ حضرت یونس کی قوم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَا اِيْمَانُهَا اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ لَمَّا اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ﴾ [2] ’’پس کیوں نہ ایسا ہوا کہ کسی بستی کو اس کا ایمان لانا فائدہ دیتا سوائے یونس علیہ السلام کی قوم کے۔ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے اس دنیا میں رسوائی کے عذاب کو دور کر دیا اور انہیں ایک وقت کے لیے فائدہ دیا۔‘‘ اس عذاب کے نزول کے بعد بھی ایمان قبول کیا گیا، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ [3] ’’پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو تم ان کا رستہ چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ عزوجل بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘ 3۔ عذاب الٰہی اور امان الہی؟ مشرکین سے قتال کے حکم کے فورا بعد مسلمانوں کو کہا گیا: ﴿ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ﴾ [4] ’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی تم سے امان طلب کرے تو اسے امان دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی امان کی جگہ پہنچا دو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کا حکم جانتے نہیں ہیں۔‘‘ اب اگر ﴿ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ ﴾ کے حکم کو عذاب مانیں تو یہ کیسا عذاب ہے کہ جس میں ’’اتمام حجت‘‘ کے بعد ’’امان الٰہی‘‘ بھی موجود ہے؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اللہ کا کلام سننے کے بعد ایمان |