کتاب کی ہے جو دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عام مشرکین عرب سے جزیہ قبول کرنےکا جو حکم صحیح مسلم کی روایت کے حوالے سے ہم نے اوپر نقل کیا ہے، وہ دراصل اسی آیت مبارکہ کابیان ہے۔اس آیت مبارکہ کے معنی ومفہوم پر مزید گفتگو خلاصہ بحث میں کی گئی ہے۔ محترم عمار خان ناصر صاحب کی رائے ہے کہ سورۃ توبہ کی آیات میں وارد قتال کے حکم کے لیے ’’نقض عہد‘‘ کو علت بنانے میں کچھ اشکالات ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ سورۃ توبہ کی ان آیات میں ’’نقض عہد‘‘ حکم قتال کی منصوص علت ہے جبکہ ’’اتمام حجت‘‘ قیاسی ہے۔ لہٰذا منصوص علت کے مقابلے میں قیاسی علت کو کیسے ترجیح دی جا سکتی ہے؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ قیاسی علت، علت بننے کی شرائط پر بھی پوری نہیں اتر رہی ہے۔ ’’اتمام حجت‘‘ ایک ایسی علت ہے جو انضباط کے وصف سے خالی ہے۔ کس نے عہد توڑا ہے؟ یہ ایک منضبط وصف ہے جبکہ کس پر اتمام حجت ہوئی ہے؟ یہ ایک غیر منضبط وصف ہے۔ مشرکین کے حق میں ’’اتمام حجت‘‘ کے وصف کے غیر منضبط ہونے کی دلیل یہ آیت مبارکہ بھی ہے: ﴿ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ﴾ [1] جہاں تک منصوص علت ’’نقض عہد‘‘ پر اشکالات کی بات ہے تو محترم عمار خان ناصر صاحب نے ایک اشکال یہ وارد کیا ہے کہ ﴿ بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ [2] میں ’’معاہد مشرکین‘‘ سے خطاب ہے جبکہ آیت ﴿ وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَرَسُوْلُهٗ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ [3] میں جزیرہ نما عرب کے تمام مشرکین سے خطاب ہے۔ اور ان دو آیات میں دو الگ حکم بیان ہوئے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ ان دو آیات میں دو الگ حکم بیان ہوئے ہیں۔ ان دونوں آیات میں ایک ہی حکم بیان ہوا ہے اور وہ ’’مشرکین سے براءت‘‘کا حکم ہے۔ یہ حکم پہلی آیت میں ’’براءة من المشركين‘‘ اور تیسری میں ’’بريء من المشركين‘‘ کے الفاظ میں موجود ہے اور دونوں آیات میں ایک ہی حکم ہے۔ اب جہاں تک اس حکم کے مخاطب کی بات ہے کہ کیا دونوں آیات میں مخاطب بھی ایک ہے؟تو اس میں اختلاف ممکن ہے۔ لیکن اگر محترم عمار خان ناصر صاحب کی رائے کو ہی مان لیا جائے کہ دونوں آیات میں مخاطب مختلف ہیں تو اس سے ان کے نکتہ نظر کو کوئی تائید نہیں ملتی کیونکہ دونوں آیات میں حکم براءت کا ہے نہ کہ قتال کا۔ اور محل بحث قتال کا حکم ہے۔ |