لیے ہو جائیں تو ہم کلام کے معانی کے اسرار اور اس کی حکمتوں کو خود ملاحظہ کرلیں گے۔ ا سکے بعد ہم صحابہ کے علوم اور ان کی قدرومنزلت کی معرفت حاصل کر لیں گے ، اور وہ فرق جو ان صحابہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کے مابین پایا جاتا ہے، اس کی مثال تو بالکل اس فرق و تفاوت کی مانند ہے جو ان کے مابین فضیلت و قدرو منزلت کا تفاوت ہے۔ اور اللہ رب العزت خوب جانتا ہے کہ ا س کے فضل کے مواقع کہاں ہیں نیز اس کی رحمت کن لوگوں کے لیے مختص ہے۔‘‘ [1] ۲۔ آپ ’’إعلام الموقعین‘‘ ہی میں ایک دوسری جگہ آداب مفتی کے متعلق لكھتے ہیں: ” کسی بھی مسئلہ (فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) میں حسن نیت ، خالص عزم اورسچی لگن کی بناء پر تأویل کرنے ولا شخص ان شاء اللہ اجر سے محروم نہیں ہوگا ۔ اگر اس کا مقصد دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانا یا ان کی اصلاح کرنا ہو۔ اگرچہ خطا کی بناء پر اللہ کے ہاں دوہرے اجر سے محروم ہوگا۔‘‘ [2] تکرار بعض ناقدین امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تالیفات و تصنیفات پر یہ نقد کرتے ہیں کہ آپ کی کتب میں تکرار بہت زیادہ ہے۔ اگر ایک مسئلہ کو ایک کتاب میں مفصل طور پر بیان کر چکے ہوں تو دوسری کتاب میں پھر اس کا تذکرہ کر دیتے ہیں۔ اورنتائج کے لحاظ سے یہ اسلوب بیکار اور طوالت کا باعث ہے۔ اگر غوروفکر اور نظر عمیق سے دیکھا جائے تو یہ تکرار نہ تو نقد کا باعث ہے اور نہ تعب کا ، بلکہ یہ تو قابل تعریف صفت ہےاور بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ کیونکہ اس طرح کا تکرار تو کتاب و سنت اور آئمہ سلف کی موٴلفات میں بھی پایا جاتا ہے، مثلاً: نصوص شریعت میں تکرار قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ہر شخص اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سابقہ امتوں اور ان کے انبیاء کے قصوں کو بار بار اور تکرارسے ذکر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض احکامات دینیہ کو توتکرار ہی سے نازل کیاگیا ہے۔ خصوصاً آیاتِ توحید والبعث والنشور اور ان پر دلائل و براھین وغیرہ۔ اس تکرار کا مقصد ان میں موجوددرج ذیل بلیغ حکمتیں اور اسرار جمیلہ کا بیان ہے: ۱۔ وعظ و نصیحت کی خاطر آیات کو تکرار سے بیان کرنا، خصوصاً ماضی کے قصص کو۔ |