ہی درست نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کی نفی تو دونوں ائمہ کی تالیفات کے موازنہ کرنے سے ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تعریفات کا یہ میزہ ہے کہ آپ نے اپنی تالیفات میں ابداع اور حسن ترتیب کا خاص اہتمام کیا ہے۔ نیز مختلف الانوع علوم کی پہچان کروائی ہے۔ اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنےاس وصف كے باعث اپنے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے مماثلت رکھتے ہیں۔اس خوبی کو جانچنے کے لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی درج ذیل کتب کا مطالعہ مفيدثابت ہوگا۔ ۱۔ منهاج السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة و القدریة ۲۔ الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح ۳۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول ان کے علاوہ دیگر کتب بھی ہیں اگر ان کا مطالعہ گہرائی اور عمیق نظرسے کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب بھی حسن سیاق اور جمال ترتیب کی اپنی مثال آپ ہیں۔ تواضع ، عاجزی اور خدائے ذوالجلال کے سامنے گڑ گڑانے کا اظہار باعمل اہل علم کی یہ ایک بڑی ہی اہم صفت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے علوم میں برکت پیدا کر دیتا ہے نیز ان کے علم کو دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کا شمار بھی مذکورہ صفت کو اپنانے والے انہی کبار علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عمل کو اپنے رب کے لیے خالص کیا ہوا تھا۔ نیز اپنی ضروریات اور حاجات کو صرف اسی کے دروازے پر پیش کیا اور اپنی عبودیت کی پیشانی خالصتاً اسی کی چوکھٹ پر سجائی تھی۔ یہ صفت امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اکثر موٴلفات میں کثرت سے پائی جاتی ہے بلکہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی کتاب کی ابتداءاور انتہاءاسی صفت پر منحصر ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ قاری کو یہی نصیحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہر فیصلہ کرتے وقت رفق و نرمی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: ۱۔ آپ اپنی کتاب’’إعلام الموقعین‘ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً ﴾ [1]ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ” یہ عظیم مثال اپنے اندر متعدد اسرار و حکمتیں سموئے ہوئے ہے۔ گویا کہ یہ آیت ہمارے محدود ذہنوں ، خطا کار دلوں ، ناقص علوم اور ہمارے اعمال (جو توبہ اور استغفار کے لائق ہیں) کے ہاں سمندر کا ایک قطرہ ہے ۔ اگر ہمارے دل طاہر ، ذہن صاف ، نفوس پاکیزہ ، اعمال اور ارادے خالص اللہ اوراس کے رسول کی رضا مندی کے |