Maktaba Wahhabi

82 - 114
’’آپ کی کلام میں حسن تصرف، اضافی شیرینی اور ایسا حسن سیاق پایا جاتا ہے جو غالب مصنفین کے کلام میں موجود نہیں ہے۔ افہام آپ کے کلام کے عاشق ہیں ، اذہان اس کی طرف مائل ہوئے ہیں اور قلوب اسے پسند کرتے ہیں ۔‘‘ ۲۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وکل تصانیفه مرغوب فیها بین الطوائف وهوطویل النفس فیها یتعانی الایضاح جهده فیسهب جدا.‘‘ [1] ’’ آپ اپنی مؤلفات میں بہت تفصیل سے لکھنے والے تھے۔آپ مسئلے کو واضح کرنے میں خوب محنت کرتے اور بہت زیادہ تھک جاتے تھے۔‘‘ سیاق وسباق کے لحاظ سے کلام کی حسن ترتیب امام ابن قیم رحمہ اللہ کی موٴلفات کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ سیاق و سباق کے لحاظ سے کلام کو حسن ترتیب سے نقل کرتے ہیں: اس خوبی کو اپنانے میں آپ اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے مماثلت رکھتے ہیں۔ کچھ علماء نے اس معاملہ میں غلطی کی ہے کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ اس صفت کو اپنانے میں اپنے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے فوقیت لے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک استاد ندوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1420ھ) ہیں آپ فرماتے ہیں: ’’موٴلفات امام ابن قیم رحمہ اللہ حسن ترتیب کی بناء پر ممتاز ہیں اور اس خوبی میں آپ کی کتب آپ کے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی موٴلفات سے فوقیت حاصل کر چکی ہیں۔‘‘ [2] دراصل یہ فرق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کے مخالفین کا پید اکردہ ہے کیونکہ ان کے اس فرق کو بیان کرنے کا بنیادی مقصد اس بات کو اجاگر کرنا ہے کہ اگر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی موٴلفات نہ ہوتیں تو ان کے شاگرد امام ابن قیم رحمہ اللہ کبھی بھی اس قسم کی تالیفات نہ لکھ سکتے۔ ان كے خیال میں امام ابن قیم رحمہ اللہ نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کی تالیفات کو تہذیب و ترتیب اور حسن سیاق و اسلوب کے ساتھ نئے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ہاں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تالیفات حسن ترتیب و سیاق ، اور عمدہ تالیف کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی تصانیف کی خصوصیات کی حامل نہیں تھیں۔ حالانکہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ دونوں نتائج
Flag Counter