Maktaba Wahhabi

81 - 114
۲۔ عدة الصابرین وذخیرة الشاکرین ۳۔ طریق الهجرتین وباب السعادتین یہی وجہ ہے کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تالیفات کے ناموں سے قاری کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتاہے کہ آیا ان کی کوئی کتاب کسی متعین موضوع پر بھی ہے کہ نہیں؟ آپ کے اس کے متعلق ڈاکٹر صبحی الصالح رحمہ اللہ (متوفیٰ 1407ھ) فرماتے ہیں: ” امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتب میں سے کسی خاص موضوع پر لکھی گئی کتاب کے متعلق باحث کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا وہ کتا ب خاص اپنے موضوع پر محیط ہے کہ نہیں، کیونکہ آپ نے اگر کوئی کتاب علم کلام پر لکھی ہے تو اس میں مسائل فقہیہ کا تذکرہ کر دیا ہے۔ اسی طرح دلوں کو نرم کرنے لیے مواعظ کے متعلقہ مواد کو کسی کتاب میں جمع کیا ہے یا فقہ اور اصول فقہ کے متعلق اگر کتاب تالیف کی ہے تو وہ کتاب بھی علم کلام کی بحوث اور مواعظ وغیرہ سے خالی نظر نہیں آتی۔اسی طرح جن کتب میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا ہے تو ان میں عام تاریخی واقعات کو بھی جگہ دے رکھی ہے۔ پھر مزید یہ کہ اگر آپ نے مواعظ و ارشادات پر کتاب لکھی ہے تو اس میں عام مواعظین کی طرح قصص اور واقعات کو درج نہیں کرتے بلکہ انسان اور اس کی حیات کے متعلق عمیق قسم کی ابحاث کا تذکرہ کرديتے ہیں۔ جن کے درمیان احکام شریعت اور ان کے اسرار کو بھی ذکرفرما دیتے ہیں۔ لیکن یہ باتیں عیب نہیں ہیں۔ اس لیے کہ یہ تومدارس سلفیہ کے خصائص میں سے ہے جنہیں امام ابن قیم رحمہ اللہ ’’التشریع بالتوجیه‘‘ ، اور ’’التوجیه بالتشریع‘‘ کے حسین امتزاج کی تمثیل میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس اسلوب میں امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اقتدا ء کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ایک روشن فکر اور وسیع القلب انسان تھے۔ [1] اسلوب بیان میں جاذبیت امام ابن قیم رحمہ اللہ کے حامی و مخالفین سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کی تالیفات الفاظ کی جاذبیت اور قوت بیان سے متصف ہیں۔ ۱۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے: ’’وله من حسن التصرف مع العزوبة الزائدة وحسن السیاق ما لا یقدر علیه غالب المصنفین بحیث تعشق الافهام کلامه وتمیل الیه الأ ذهان وتحبه القلوب.‘‘ [2]
Flag Counter