﴿ مَا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةً بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ ﴾ [1] ’’جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ ‘‘ نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ [2] ’’اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔‘‘ جزاء الصید کے متعلق اللہ فرماتا ہے: ﴿ لِّيَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ ﴾ [3] ’’تاکہ وہ اپنے کئے کا مزہ چکھے۔‘‘ مذکورہ بالا تمام مثالوں میں اللہ تعالی نے احکام کے ساتھ ساتھ ان کی علتیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی،تہذیبی و تمدّنی کمزوریوں کا بیان اور ان کاعلاج امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تصنیفات میں یہ خصوصیت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ آپ معاشرے کی اخلاقی، تہذیبی و تمدنی کمزوریاں بیان کرنےکے بعد ان کاعلاج بھی تجویز کرتے ہیں۔آپ کی کتب کامطالعہ کرنے والا ہر شخص اس بات سے بخوبی واقف ہوگا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ مطلقا لکھنے کا ایک آلہ نہیں تھے جو صرف الفاظ کو لکھنے اور پرونے میں لگے رہتے تھے۔ بلکہ آپ معاشرے کی اخلاقی اور تہذیب و تمدن کی تمام کمزوریوں اور بیماریوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا علاج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ آپ کا یہ منہج علم اور حیات قلبی و فکری اورروحانی احساسات کے ساتھ مرتبط تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی کتب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہ سات صدیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہیں۔ اور یہ بات تعجب سے خالی نہیں ہے کہ تمام طبقات کے لوگوں کے لیے آپ کی تالیفات و تصنیفات گہری تأثیر کا اثر رکھتی ہیں۔ آپ کے اس منہج کو دیکھنے کے لیے آپ کی درج ذیل کتب دیکھیے: ۱۔ مفتاح دار السعادة ومنشور ولایة العلم والإرادة |