ابن قیم رحمہ اللہ کے مسلک ترجیح و اختیار کو دیکھنا ہو تو ان درج ذیل کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے: ۱۔ مفتاح دارالسعادة ۲۔ إعلام الموقعین ۳۔ الفروسیة ۴۔ طریق الهجرتین کلام کو انتہائی مناسب انداز سے پیش کرنا علمی گفتگو میں کلام کومناسب انداز سے بیان کرنا گفتگو کو اس دستر خوان کی مانند بنا دیتا ہے جس پر مختلف انواع واقسام کے لذید کھانے رکھے گئے ہوں۔ یہ اندازبيان دلوں پر بڑا ہی مؤثر ہوتاہے، کیونکہ اس سے نفس کو راحت ملتی ہےاور انسان اس گفتگو کے مطالعے میں غرق ہو جاتاہے اور اسے مکمل کیے بغیر نہیں چھوڑتا ہے۔ کلام کو مناسب انداز میں بیان کرنے کی کیفیت ہر عالم اور موٴلف کے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ صفت تو ان کبار اہل علم و حفاظ کے اندر ہی پائی جاتی ہے جن کے ذہن مختلف علوم و فنون سے لبریز ہوتے ہیں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کا شمار ایسے ہی علما وائمہ میں ہوتا ہے جن میں یہ کیفیت بدرجہ أتم پائی جاتی تھی۔کیونکہ یہ کیفیت دراصل لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مندہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ مسئلہ کے تمام پہلو ان کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں اور وہ اس کا مطالعہ کرنے سے بہت زیادہ فرحت محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن قیم رحمہ اللہٍ نے اپنی ’’کتاب البیان‘‘ میں ’’الاستطراد التناسبی‘‘ کو اسلوب قرآن کے لطائف میں سے شمار کیا ہے۔ آپ سورة النجم کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ” جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا جبرئیل کو ’’سدرة المنتهیٰ‘‘ کے پاس دیکھنے کا تذکرہ کیا گیا تو اسی کے ساتھ اس بات کا بھی تذکرہ کر دیا گیا کہ ’’جنت المأوی‘‘ بھی اس کے پاس ہی ہے اور یہ کہ اللہ کے حکم سے کوئی چیز اس درخت کو چھپا لیتی ہے جو اس پر چھا رہی تھی۔ یہ استطراد کی سب سے احسن صورت ہے اور قرآن مجید کا بڑا ہی لطیف اسلوب ہے ۔ اس کی مزید دو اقسام ہیں۔ “ [1] پھر ان دونوں صورتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ آپ اپنی کتاب’’روضة المحبین‘‘ میں سورة الاحزاب ، سورة الاعراف اور سورة البقرہ میں استطرادی اُسلوب کی متعدد مثالیں بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘ [2] |