دینے والا ہوگا۔ جب کہ یہ بات مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے مکروفریب کو کامیابی عطا نہیں فرماتا ۔ اور وہ ہر اس شخص پر جنت کو حرام قرار دیتا ہے جس نے اسلام اور اہل اسلام کو دھوکا دیا ہو۔ دین تو خیر خواہی کا نام ہے۔ جب کہ( غِش) دھوکہ دہی تو دین کے بالکل متضاد ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جھوٹ، صدق کے اور باطل، حق کے متضاد ہے۔ ہم تو اکثر مسائل میں اپنے مذہب کے مخالف اعتقاد رکھتے (ہوئے فتویٰ دے دیتے ) ہیں۔ اور ہمیں کبھی بھی اس بات کی پرواہ نہیں رہی کہ راجح موٴقف ہمارے مذہب کے مخالف ہے بلکہ ہم تو صاف کہہ دیتے ہیں۔:هذا هو الصواب وهو أولى أن یُوخذ به و باللّٰہ التوفیق. ‘‘[1] کسی بھی مسئلہ کو واضح قرار دینے، اسے اختیار کرنے اور فیصلہ کرنے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کا بھی یہی انداز ہے کہ وہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ اور ان کے مدلولات کی مطلق طور پر پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کا یہ اندازتحقیق آپ کی تالیفات و تصنیفات میں جابجا نظر آتا ہے۔آپ خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی منہج کی پیروی کرنے کی تلقین کرتےنظر آتے ہیں۔ انہی مثالوں میں سے ایک مثال حِکم وتعلیل کی نفی کرنے والوں کے ساتھ مناقشہ کی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں: ” اب شدید بحث شروع ہو گئی ہے، دلائل تیزی سے اپنا کام دکھانے لگے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی مددکرنے والی جماعت کو جوش آگیا ہے۔ وہ قرآن وحدیث کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ وہ نہیں ہیں جو اپنوں یا غیروں کا حق کے مقابلے میں کوئی لحاظ کریں، نہ ہی یہ وہ ہیں کہ خواہ مخواہ کسی جماعت کی پاسداری میں لگے رہیں۔ یہ حق کے ساتھی ہیں اور فرقہ بندی سے بیزار ہیں۔ یہ وہ نہیں ہیں جو کہیں کہ چونکہ ادهر ہمارے ہم مذہب ہیں، ادهر ہمارا امام ہے، لہذا ہم وہی کہیں گے جدھر ہمارا امام ہے ۔ادهر چونکہ دوسرامذہب ہے ،دوسرے امام ہیں، لہذا ان کی تردید ضروری ہے۔ یہ کام تو متعصب اور جاہلیت کی حمیت والوں کا ہے۔ حق والے تو حق کو قبول کرتے ہیں اور حق سے ناحق کو دور کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اس سے برا طریقہ کوئی نہیں ہے کہ انسان حق وناحق دونوں صورتوں میں اپنے مذہب والوں کے ساتھ چمٹا رہے۔ایسا شخص اگر کوئی درست بات کرے تو بھی قابل تعریف نہیں ہے اور اگر نادرست بات کرے تو دوہری مذمت کا مستحق ہے۔جو لوگ سمجھ دار اور ہدایت یافتہ ہیں وہ اس مہلک اور خطرناک روش سے بالکل الگ ہیں ۔وہ جدھر حق دیکھتے ہیں ادھر ہو لیتے ہیں اور جہاں ناحق دیکھتے ہیں وہاں سے دامن جھاڑ کر علیحدہ ہو جاتے ہیں “ [2] آپ کی یہ ایک بنیادی خصوصیت ہے جو آپ کے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اندر بھی پائی جاتی تھی۔ اگر امام |