لہٰذ کسی انسان کی علمی سخاوت کی نشانی یہ ہے کہ وہ کسی سائل کے سوال پر ہی اکتفاء نہ کرے بلکہ اس کے نظائر، متعلقات اور مآخذ کا بھی ضرور تذکرہ کرے تاکہ سائل کے لیے وہ کافی و شافی ہو جائے۔ اس انداز کو اپنانا ہر عالِم کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن یہ خوبی امام ابن قیم رحمہ اللہ کے ہاں بدرجہ أتم پائی جاتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ کے تلامذہ اور وہ علماء جنہوں نے آپ کے حالات زندگی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے وہ آپ کی اس خوبی کی بناء پرآپ کی بے حد تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وهوطویل النفس في مؤلفاتة یعاني الایضاح جهده فیسهب جدًّا. ‘‘[1] ” آپ اپنی مؤلفات میں بہت تفصیل سے لکھنے والے تھے۔آپ مسئلے کو واضح کرنے میں خوب محنت کرتے اور بہت زیادہ تھک جاتے تھے۔ ‘‘ اسی قسم کی تعریف امام شوکانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1250ھ) [2]نے بھی کی ہے۔ کسی بھی مسئلہ کو اختیار کرنے اور راجح قرار دینے میں آزادی اظہارسے کام لینا امام ابن قیم رحمہ اللہ مسلکی طور پرحنبلی ہونے کے باوجود ایک آزاد اور محقق عالم دین تھے۔آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو حنبلی مذہب میں قید نہیں کیا، بلکہ اعلانیہ طور پر دلائل کی پیروی کرتے تھے۔ خواہ وہ دلائل آپ کے مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ جاتے ہوں۔ آپ نے اہل علم کو ہمیشہ اس بات کی تلقین کی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی مدد کرنے کی خاطر کبھی بھی تقلید شخصی یا بغیر دلائل کے اسے راجح قرار دینے سے باز رہیں۔ بلکہ اگر پوچھے گئے مسئلہ میں حق بات اپنے مذہب و مسلک کے خلاف جاتی ہو تو پھر فتویٰ دیتے وقت مسلک کو چھوڑ کر حق بات کو بیان کرے خواہ وہ اپنے مسلک کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنے والے مفتی صاحب کو اس بات سے بھی ڈرنا چاہیے کہ جب وہ کسی سائل کو فتویٰ دیں تو وہ فتویٰ اپنے اسی مسلک کے مطابق نہ دیں جس کی وہ تقلید کر رہے ہیں۔جب کہ جواب دیتے وقت انہیں ا س بات کا کامل یقین ہو کہ اس مسئلہ میں دوسرا مذہب ان کے مذہب کے مقابلہ میں زیادہ واضح اور صحیح دلیل والا نہیں ہے ۔ اگر اس نے اس موقع پر راجح مذہب کو چھوڑ کر فتویٰ اپنے غیر صحیح مذہب کے مطابق دینے کی کوشش کی تو یہ مفتی اللہ، اس کے رسول اور سائل سے خیانت کرنے وا لا ہوگا۔ بلکہ سائل کو دھوکا |