جمع کردیا ہے۔ ان میں سے چند کتب کے نام درج ذیل ہیں: ۱۔ اجتماع الجیوش الإسلامیة علی غزو المعطلة والجهمية ۲۔ الداء والدواء ۳۔ البیان في أقسام القرآن ۴۔ الروح ان کے علاوہ اور بھی کئی کتب ہیں جنہیں آپ کی تالیفات کی ضمنی مباحث میں دیکھا جا سکتا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الروح ‘‘ میں اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ تالیف میں ان کا منہج یہی ہے۔ اور یہ منہج اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پرخاص نعمت اور فضل سے کم نہیں ہے ۔ آپ فرماتے ہیں: ”یہ وہ خلاصہ ہے جو لوگوں کے ان اقوال کا مجموعہ ہے جو روح بعدالموت کے متعلق ہیں۔ اس مسئلہ میں آپ کو کتاب الروح کے علاوہ کوئی اور کتاب مستقل طور پر لکھی ہوئی نہیں ملے گی۔ اس میں ہم نے تمام اقوال درج کرنے کے بعد ’’ماله وما علیه‘‘ اور ’’ما هو الصواب‘‘ کو کتاب و سنت کی روشنی میں اپنے اس منہج کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کی صورت میں بیان کر رکھا ہے۔ وہی ذات ہے جس سے ہر قسم کی اعانت اور توفیق کی امید کی جا سکتی ہے۔“ [1] امام ابن قیم رحمہ اللہ اس منہج کو اس سخاوت سے تعبیر کرتے ہیں، جسے اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جودوسخا بھی عبادت کی منازل میں سے ایک منزل ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ” علم کی سخاوت یہ ہے کہ جب کوئی سائل آپ سے کسی مسئلہ کے متعلق دریافت کرے تو آپ اس کے جواب کو بڑے ہی شافی انداز میں مکمل طور پر بیان کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کا جواب ہرگز بقدر ضرورت نہیں ہوناچاہیے، جیسا کہ بعض لوگ کسی کے سوال کے جواب میں صرف کلمہ ’’نعم ‘‘یا کلمہ’’لا ‘‘ کہنے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ میں نے اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا انداز اس معاملہ میں بڑا ہی نرالہ پایا۔ اگر آپ سے احکامات کے متعلقہ کوئی سوال پوچھا جاتا تو آپ اس کے جواب میں حتی المقدور آئمہ اربعہ کے مذاہب کا تذکرہ کرتے، پھر ان کے اختلاف کا مأخذ نقل کرنے کے بعد راجح قول کو راجح قرار دیتے۔ نیز اس مسئلہ کے متعلقات کا بھی اظہار فرماتے جو کہ سائل کے ہاں اس کے سوال سے بھی زیادہ فائدہ مند اور اہم ہو۔ جس سے سائل کواپنے سوال کرنے سے بھی زیادہ خوشی محسوس ہوتی ۔ اور آپ کے فتویٰ کا انداز بھی ایسا ہی ہوتا ۔ “[2] |