ان کے علاوہ دیگر مسائل میں ہوگا ، مثلا ’’مسئلة ابن الملاعنة‘‘ اور مرتد کی وراثت کا مسئلہ وغیرہ ہیں۔ ان مسائل میں مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمدہ اقوال کے علاوہ کسی اور کا قول پسند نہیں آیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ قول جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہو وہ قیاس کے بھی مخالف ہو۔ لیکن کچھ لوگوں نے ان کے اقوال کو قیاس کے مخالف قرار دیا ہے حالانکہ قیاس صحیح اور فاسد کا جاننا بھی اہم امور میں سے ایک ہے۔ اوراس سے آگاہی صرف اس کو ہو سکتی ہے جو شریعت کے اسرار و مقاصد سے باخبر ہو....الخ“ [1] کسی بحث کو نقل کرنے سے پہلے اس کے تمام متعلقات کوذکر کرنا اللہ تعالیٰ نے امام ابن قیم رحمہ اللہ کو ایک اہم اور خاص صفت سے نوازا تھا۔ آپ مسائل میں سے کسی بھی مسئلہ پر بحث نقل کرنے سے پہلے اس کے متعلقہ تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث نقل کرتے جسے اقوال ، آراء ،دلائل اور وجوہ استدلال سے مرصع کرتے پھر مناقشانہ انداز میں بحث نقل کرنے کے بعد مختار قول کو ایسی دلیل سے بیان کرتے جو عقلی اور نقلی دونوں لحاظ سے درست اور مستحکم ہوتی۔ [2] یہ ایک تحقیقی اسلوب ہے اور اس پر وہی شخص کاربند رہ سکتا ہے جو امام ابن قیم رحمہ اللہ کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اہل علم کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تألیفات میں سے اکثر بحوث کو مستقل رسالہ جات کی صورت میں جگہ دی ہے۔ جن کا بنیادی سبب آپ کی بحوث کا ہر لحاظ سے کامل ہونا ہے۔ آپ کی ان بحوث میں سے چند ایک کا تذکرہ درج ذیل ہے: ۱۔ بحث الطلاق الثلاث بلفظ واحد ۲۔ بحث التحسین والتقبیح العقلیین ۳۔ بحث التأ ویل ورده ۴۔ بحث المجاز ورده ۵۔ بحث النفقات و مقادیرها امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تالیفات کے وسیع سمندر میں سے یہ چند ایک مثالیں ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک منصف مزاج شخص آپ کی اس خوبی سے یقینی طور پر متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے تو ایک ایک مسئلہ پر مستقل کتابیں لکھ رکھی ہیں اور ان میں مذکورہ اسلوب اورمنہج کو سامنے رکھتے ہوئے سیر حاصل مواد |