۴۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس فتویٰ پر متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق ہو، لیکن ہم تک صرف فتویٰ دینے والے صحابی کا قول ہی پہنچا ہو۔ ۵۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صحابی نے یہ فتویٰ عربی زبان پر اپنے کمال علم ، واقعہ کے شان نزول ، دلالت لفظ ،حالیہ قرائن سے سمجھ کر ، خطاب کی اونچ نیچ ، الفاظ کی واقعہ سے مطابقت یا ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے ایک بات سمجھی ہواوراسے بیان کردیا ہو، یاصحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں طویل زمانہ گزارتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال،احوال اور سیرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سماع،وحی کے نازل ہونے اوربالفعل وحی کی تفسیرکامشاہدہ کرتے ہوئے ایک ایسے فہم کی بناء پر فتویٰ دے دیا ہو جس کاسمجھنا اور پرکھنا ہمارے بس کی بات نہ ہو۔ لہٰذا مذکورہ پانچ صورتوں کی بناء پر صحابی کا فتویٰ ہمارے لیے حجت ہے جس کی اتباع بھی ہم پر واجب ہے۔‘‘ [1] ۶۔ صحابی نے اپنے فہم کی بناء پر فتویٰ دے دیا ہو۔ اگر اس کافہم خطا پر مبنی ہو تو ایسی صورت میں صحابی کا قول حجت نہیں ہو گا۔ آپ نے اپنی کتاب ’’إعلام الموقعین‘‘ میں اس بات کو ایک اور انداز سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ صحابہ کے اقوال اور ان کے فتاویٰ پر تو کتاب و سنت اور قیاس جلی بھی دلالت کرتا ہے اور متعدد مسائل دینیہ کے متعلق صحابہ نے فتوے صادر فرمائے ہیں۔ جو کہ ہمارے لیے باعث خیر ہیں، لیکن کچھ لوگوں نے صحابہ کے اقوال اور فتاویٰ کو خلاف قیاس سمجھتے ہوئے رد بھی کر دیا،لیکن ابن قیم رحمہ اللہ نے ان کے اس اعتراض کا بڑا ہی عمدہ جواب دیا ہے۔ [2] آپ نے اپنے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گفتگو کو بھی اس مسئلہ کی وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے۔ آپ کہتے ہیں: ” ہمارے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ میں نے اللہ کی توفیق سے اسباب کے مسئلہ میں بڑا ہی غوروفکر کیا ہے اورمیں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو امت کے سب سے بڑے فقیہ اور سب سے زیادہ علم رکھنے والے پایا ہے ۔ خصوصاً ’’باب الأیمان والنذور والعتق‘‘ وغیرہ میں، البتہ ’’الطلاق بالشروط‘‘کے متعلقہ مسائل میں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اقوال ثابت ہیں، وہ سب سے زیادہ صحیح اور درست ہیں۔ ان پر کتاب وسنت اور قیاس جلی بھی دلالت کرتا ہے۔ اور ان کے علاوہ ہر وہ قول جو نصوص کے مخالف ہوگا وہ قیاس کے متعارض ہو گا۔ یہی حال |