کوئی نص ہوگی جس سے استدلال کرنے میں وہ ہم سے منفردہے۔لہٰذا اُس نص میں ہم اس کی مشارکت بھی کر سکتے ہیں۔ رہا سوال اس نص کا صحابی کے ساتھ مختص ہونے کا تو ممکن ہے اس صحابی نے وہ نص بالمشافہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، یا کسی اور صحابی کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لی ہو۔ کیونکہ صحابہ کی جماعت میں کتنے ہی ایسے صحابہ ہیں۔ جو احتیاط کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے بہت کم روایات بیان کرتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے جتنی بھی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لی ہیں وہ تمام کی تمام بیان نہیں کیں۔ آخر سیدنا ابوبکر صدیق ، سیدناعمر فاروق اور ان کے علاوہ دیگر کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات کہاں چلی گئی ہیں جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں۔ حالانکہ سیدنا ابوبکر صدیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےکبھی الگ نہیں ہوئے۔ بلکہ آپ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد اور مبعوث ہونے سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے ہیں۔ یہاں تک آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کی مرویات کی تعداد سو (100) بھی نہیں ہے۔ حالانکہ آپ کے متعلق تو یہ بھی کہا جاتاہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال ، طریقوں اور سیرت کو امت میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ ایسے ہی دیگرکئی جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں کہ ان کی مرویات کی تعداد بھی بہت کم ہے باوجود اس کے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کچھ سنا اور بہت کچھ دیکھا ہے۔ اگر اُن میں سے ہر صحابی اپنے تمام مشاہدات اور سنی ہوئی روایات بیان کر دیتے تو یقینا ان کی مرویات سیدنا ابوہریرہ کی مرویات سے کہیں زیادہ ہو جاتیں۔ کیونکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے تو کل چار سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گذارے ہیں باوجود اس کے ان کی روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ قلیل الروایات والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے اور اس ڈر سے کہ کہیں فرمان رسول کو بیان کرنے میں کمی و زیادتی نہ ہو جائے انہوں نے روایات بیان کرناچھوڑ دی تھیں۔ البتہ وہ روایات جو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد بار سنی تھیں انہیں بیان کر دیتے تھے۔ اور جو متعدد بار نہیں سنی تھیں ان کے متعلق انہوں نے سماع کی صراحت نہیں کی اور نہ یہ کہا کہ "قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم " دراصل یہی وہ روایات تھیں جن کی نسبت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تو نہ کی البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیے بغیر انہیں دلیل و نصوص سمجھتے ہوئے ان کے مطابق فتویٰ صادر فرما دیا۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ کی مندرجہ ذیل چھ صورتیں ہی ممکن ہو سکتی ہیں: ۱۔ ہو سکتا ہے کہ صحابی نے بالمشافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات سن رکھی ہو۔ ۲۔ ہو سکتا ہے کہ صحابی نے و ہ بات اس صحابی سے سنی ہو جس نے بذات خود رسول اللہ سے سنی ہو۔ ۳۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات صحابی نے قرآن مجید کی کسی آیت سے سمجھی ہو۔ جس کا فہم و ادراک کرنا ہمارے بس کی بات نہ ہو۔ |