تیسری صورت ’ذوق‘کی ہے جو کہ تصوف و زہد کی طرف منسو ب متکبرین کی دلیل ہوتی ہے۔ ان کے ہاں اگرنصوص اور ذوق کے مابین تعارض پیدا ہو جائے تو یہ ذوق اور حالات کا لحاظ کرتے ہوئے نصوص کی پرواہ کئے بغیر نصوص کو پس پُشت ڈال دیتے ہیں۔ چوتھی صورت ’سیاست‘ کی ہے جو کہ متکبر اور جابر حکمران و امراء کی دلیل ہے۔ ان کے ہاں اگر شریعت اور سیاست کے مابین تعارض ہو تو سیاست کو شریعت پر مقدم سمجھا جائے گا۔ اور یہ لوگ شریعت کے حکم کی طرف اس صورت میں جھانکنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ یہ سب لوگ متکبرین میں سے ہیں۔ حالانکہ تواضع تو اس میں ہے کہ ان چاروں کے نظریات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے احکام شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیاجائے۔ ‘‘ [1] اقوال صحابہ کودیگر ائمہ و علماء پر مقدم رکھنا علمی مسائل کی بحث و تالیف میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ منہج ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دلیل وحجت مانتے ہیں۔ البتہ اگرکسی مسئلہ کی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وضاحت نہ ہو سکے تو وہاں آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو دلیل بنا لیتے ہیں کیوں کہ وه امت محمدیہ میں سے دین کے لحاظ سے سب سے زیادہ نیک اور فہم و فراست کے اعتبارسے سب سے زیادہ عمیق اورسمجھدار تھے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ انداز آپ کی تمام مباحث میں پایا جاتاہے خواہ ان کا تعلق عقائد سے ہو یا احکامات سے۔ آپ نے دیگر ائمہ کے اقوال پر صحابہ کے اقوال کو ترجیح دینے کے لیے اپنی کتاب’’إعلام الموقعین‘‘[2] میں چھیالیس (46) وجوہات بیان کی ہیں۔ ثبوت احکام کے لیے نصوص کو بیان کرنے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنے بعد آنے والے لو گوں سے منفرد ہوناہے۔ اور وہ نصوص جن میں صحابہ کے علاوہ دیگر علما ءو فقہا ءنے ان کے استدلال کو قبول کیا ہے۔لیکن پھر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس معاملہ میں اپنے بعد آنے والے علماء سے افضل ہونا بالکل واضح ہے۔ اس معاملہ میں امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جب صحابی کوئی بات کہہ دے ، یا کوئی فیصلہ صادر کر دے یاکوئی فتویٰ جاری کر دے تو اس کے پاس ضرور اس کی |