کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹنے کی تلقین ہوتی تھی۔ نیز مقصود یہ ہوتا تھا کہ لوگ شریعت اسلامیہ اولیٰ کے سرچشمہ سے سیراب ہوں جو کہ ہر قسم کے شکوک و شبہات اور شائبات سے خالی ہے۔ آپ کی تمام تصنيفات اور مباحث میں یہی منہج نظر آتا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ کار آپ نے اختیار نہیں کیا۔ امام ابن قیم نے کتاب و سنت کے دلائل کا احترام کرنے اور آئمہ سلف کے اقوال کو نقل کرنے میں بعدکےلوگوں کے لیے کچھ آداب ذکرکیےہیں: ” آداب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے یہ ہے کہ کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو شبہ میں ڈالنے والانہ سمجھا جائے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلہ میں مختلف آراء شبہ پیدا کر دیتی ہیں۔ کسی قیاس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص کو معارض نہ سمجھا جائے بلکہ آپ کی نصوص کی موجودگی میں تو قیاسات کو ناکارہ اور رائیگاں سمجھاجائے گا۔ نیز محض خیالات کی بناء پر (جنہیں لوگ معقولات کہتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو حقیقت حال سے پھیرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ اس لیے کہ معقولات ہی دراصل محصولات اور صواب رائے سے ہٹی ہوئی باتوں کا نام ہے اورنہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و تقریرات پر عمل کرنے کو اس وقت تک موقوف سمجھاجائیگا جب تک ان کی تائید کوئی شخصیت نہ کر دے ( بلکہ بغیر تائید شخص کے ہی آپ سے منقول احادیث صحیحہ حجت ہیں) وگرنہ مذکورہ تمام مستحسن باتوں کو چھوڑ کر اگر مذموم باتوں پر عمل کر لیا تویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سوئے ادب کے زمرہ میں شمار ہوگا اور یہ بہت بڑی جسارت شمار ہوگی۔ ‘‘أعاذ نا اللّٰہ منه آپ نے اپنی کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں مسلمانوں کودلائل صحیحہ کی پیروی کرنے کی بڑی تلقین فرمائی ہے اور انہیں اس کی ترغیب دلانے کے لیے بڑی ہی عمدہ اور لطیف پیرائے میں کلام کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کے معاملہ میں تواضع اختیار کرنا دراصل ان باتوں کو من وعن تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ’’جو باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں انہیں کبھی ان چار معارض امور(معقول ، قیاس ، ذوق اور سیاست ) کے مدمقابل پیش کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ ان میں سے پہلی چیز ’معقول ‘ متکلمین کی دلیل ہے جو متکبر اور حق سے رو گردانی کر نے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ وحی الہٰی اور فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ معقولات فاسدہ کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور یہاں تک کہنے کی جسارت کر جاتے ہیں کہ اگر عقل اور نقل میں تعارض پیدا ہو گیا تو ہم عقل کو ترجیح دیتے ہوئے نقل سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے یانقل کو عقل کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس میں تأویل (فاسد) سے کام لیں گے۔ دوسری صورت ’قیاس‘ کی ہے جو ایک خاص فقہ کی طرف منسوب متکبرین کی دلیل ہوتی ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ جب قیاس و رائے اور نصوص میں تعارض پیدا ہو جائے تو اس صورت میں قیاس کو نصوص پر مقدم رکھا جائے گااورنص کی طرف التفات نہیں کیاجائے گا ۔ |