Maktaba Wahhabi

75 - 114
یہ دراصل قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے جس کے ذریعے کسی بھی بات کو وضاحت سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کی وضاحت سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے، کیونکہ یہ نصیحت اور ارشاد کے لحاظ سے بہت ہی بہتر اسلوب ہے۔امام ابن قیم رحمہ اللہ فتویٰ کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’إعلام الموقعین‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ مفتی کے لیے جائز ہے کہ وہ سائل کو اس کے سوال سے زائد جواب دے ،کیونکہ یہ اس کے کمالِ نصیحت و علم کی نشانی ہے۔ ‘‘ جو اسے معیوب سمجھتے ہیں یہ ان کی کم علمی، تنگ نظری اور ضعف نصیحت کی نشانی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ (متوفیٰ256ھ) نے اسی سے متعلق صحیح بخاری میں یہ باب باندھا ہے کہ’’باب من أجاب السائل بأکثر مما سأل عنه‘‘[1] پھر اس پر سیدنا ابن عمر کی حدیث کو بطور شاہد ذکر کیا ہے کہ جب کسی صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا ۔ ’’مایلبس المحرم؟ ‘‘تو اس پر جوابا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا یلبس القمیص، ولا العمائم ولا السراویلات، ولا الخفاف إلا أن لا یجد نعلین فلیلبس الخفین، ولیقطعهما أسفل من الکعبین. ‘‘[2] ’’ محرم شخص قمیص، عمامہ، شلوار اور موزے نہ پہنے، اگر اس کے پاس جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال یہ کیا گیا تھا کہ محرم کون سا لباس پہنے ؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنے جانے والے لباس کا تذکرہ کرنے کی بجائے اس لباس کا تذکرہ کیا جو وہ نہیں پہن سکتا تھا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اس کے سوا ل کو بھی شامل تھا کہ وہ کیا پہنے اور اس سے زائد امر پر بھی شامل کہ وہ کیا نہ پہنے۔ اب چونکہ جو لباس اس کے لیے پہننا جائز نہیں تھا وہ محصور و محدود تھا اور جو پہننا جائز تھا وہ غیر محصور تھا ۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محصور لباس کی ممانعت بیان کر کے دیگر تمام قسم کے لباس پہننے کے جواز کو واضح فرما دیا اور یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہننے کا کیا حکم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندری پانی سے وضو کرنے کے متعلق سوال کیا تو جوابا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ((هوالطهور ماؤه، والحل میتته)) [3]
Flag Counter