مثلاً عدالت میں بیانِ واقعات کے بعد قاضی نتیجہ نکال کر جو فیصلہ کر تا ہے ، اسے درایت اجتہادی کہتے ہیں ۔ اسی طرح بھنگ،چرس اور افیون وغیرہ کو نشہ کی وجہ سے شراب پر قیاس کر کے حرام قرار دینا ۔ اسی طرح آیتِ کریمہ ﴿ وَّ امْرَاَتُهٗ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ﴾[1] سے کفار کے صحتِ نکاح کا مسئلہ نکالنا یعنی ان کے آپس میں نکاح صحیح ہیں۔ اسی طرح آیتِ کریمہ ﴿ وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا﴾[2] اور آیتِ کریمہ ﴿ وَّ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ ﴾[3] دونوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالنا کہ اقل مدّتِ حمل چھ ماہ ہے (کیونکہ تیس مہینوں سے دو سال نکالنے سے باقی چھ ماہ باقی بچ جاتے ہیں ۔ ) صحابہ کی ایسی تفسیر کی اہمیت بھی واضح ہے ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مربّی ومزکّی تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور مجالس سے وہ ہر ممکن استفادہ کرتے تھے، وحی کے نزول کے وقت حاضر ہوتے تھے، کئی واقعات، جن پر قرآن کریم اترتا تھا، میں بذاتِ خود شریک ہوتے تھے۔سلیم القلب، فہم تام، علم صحیح اور عمل صالح کے مالک تھے۔ اس زمانہ کے محاورات کو خوب جانتے تھے ، قرآن پاک ان کے محاورہ کے مطابق اترا۔ ہمیں اپنی زبان کے محاورات اور بول چال کی طرف خیال کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے مافی الضمیرپر کس طرح آسانی سے اطلاع پاتے ہیں ، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن پاک کے مضامین کو آسانی سے سمجھتے تھے کیونکہ قرآنِ مجید فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ پایہ پر اُترا ہے ۔ کمالِ فصاحت اسی میں ہے کہ معنی مراد کو ایسی سلاست اور روانگی سے مقتضائے حال کے مطابق ادا کیا جائے کہ الفاظ منہ سے نکلتے ہی معنی مراد دل میں نقش ہو جائیں ۔ جس کلام کا معنی مراد ہی متعیّن نہ ہو تو ایسی مشتبہ اور مبہم کلام کو بھی کون فصیح و بلیغ کہہ سکتا ہے؟ جس شخص کا یہ خیال ہو کہ قرآن پاک کا معنی مراد ہی متعین نہیں ہوتا اور جو آتا ہے اس سے نیا مطلب سمجھتا ہے اوراس کے اصلی معنی سے ایک شخص نہیں دو نہیں بلکہ سینکڑوں حاضریں وحی غفلت کرجاتے ہیں ، ایسا شخص در اصل قرآنِ پاک کی فصاحت وبلاغت پر ایمان نہیں رکھتا۔ ’’مختصر المعانی‘‘میں ہے : ’’فالبلاغة صفة راجعة إلى اللفظ يعني أنه یقال: کلام بلیغ لكن لا من حیث أنه لفظ وصوت، بل باعتبار إفادته المعنی أي الغرض المصوغ له الکلام بالترکیب. ‘‘ [4] ’’ بلاغت لفظ کی صفت ہے، مگر محض لفظ اور آواز ہونے کے لحاظ سے صفت نہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ لفظ معنی مراد کو ادا کرے۔ یعنی اگر لفظ معنی مراد کو ادا نہ کرے تو بلاغت کے متصف نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ |