ہے اور میں اس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں ضرور اس کے پاس پہنچوں گا۔ ‘‘ اسی طرح فرمایا: ’’كانَ الرجل مِنَّا إذا تعلَّم عَشْرَ آياتٍ لم يجاوزهُنّ حتّى يعرف معانيَهُنَّ، والعملَ بِهنَّ. ‘‘[1] ’’ جوکوئی ہم میں سے دس آیات سیکھ لیتا تھا جب تک وہ اسکے معنی نہ پہچان لیتا اور اس پر عمل نہ کر لیتا، تب تک آگے نہ بڑھتا۔ ‘‘ واضح رہے کہ تفسیر قرآن میں اقوالِ صحابہ کی تین اقسام ہیں: 1۔ مرفوع حکمی روایات مرفوع حکمی روایات سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وہ اقوال ہیں جن میں عقل و رائےاور اسرائیلیات وغیرہ کا دخل نہ ہو۔ گویا یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وہ تفسیری اقوال ہیں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنےاور سیکھے، لیکن پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کیے بغیر آگے اُمّت تک پہنچا دئیے۔ ارباب تفسیر اور محدثين نے بالاجماع انہیں بھی حدیثِ مرفوع ہی کے حکم میں داخل کیاہے، علمائے کرام نے وضاحت سے لکھا ہے: ’’أنّ قول الصّحابي ما لا مجال للرّأي فيه ولم یعرف بالأخذ عن الإسرائیلیات حكمه حکم المرفوع. ‘‘[2] ’’ اسرائیلیات سے استفادہ نہ کرنے والے صحابی کا وہ قول جس میں رائے کا احتمال نہ ہو حکماً مرفوع ہوتا ہے۔‘‘ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وہ تفسیری اقوال جن میں عقل و رائےاور اسرائیلیات وغیرہ کا دخل نہ ہو، بالاتّفاق حدیثِ مرفوع کا درجہ رکھتے ہیں اور فرمانِ باری تعالیٰ ﴿وَاَنْزَلْنَااِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾[3]کے مطابق تفسیر قرآن کا بنیادی ماخذ ہیں۔ 2۔ تفسیر اجتہادی تفسیر اجتہادی سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قرآنِ کریم سے وہ استدلال اور گہرا استنباط ہے جس کی بنیاد لغت کا سرسری معنیٰ نہیں ہوتا۔ جیسے فحوائے سیاق کلام سے کسی مطلب پر مطلع ہونا یا دو تین باتوں کوملا کر ان سے ایک مناسب نتیجہ نکالنا یا مقتضائے حال اور وضع متکلّم کو دیکھ کر اس سے کوئی بات اور نتیجہ نکالنا وغیرہ ۔ |