Maktaba Wahhabi

55 - 114
ان وجوہات کی بناء پر قرآنِ کریم کی تفسیر اجتہادی میں ان کا اور بعد میں آنے والوں کے استدلالات واستنباطات کا فرق اظہر من الشّمس ہے۔ اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفسیر اجتہادی کی حجیّت میں علمائے امت کے مابین اختلاف موجود ہے، لیکن بہرحال ان کی اس تفسیر کی قسم کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔ 3۔ تفسیرلغوی صحابہ كرام کی تفسیر لغوی کلام کے ظاہری مطلب کو کہتے ہیں جس کو اہل زبان اپنے محاورہ میں بے تکلّف سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے بول چال میں ایک دوسرے کے مافی الضمیرپر اس کے کلام سے بے تکلف آگاہ ہو جاتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھنے سے کوئی چیز حائل نہیں ہوتی، اگر بالفرض کسی موقع پر اشتراکِ لفظی یا کسی اور عارضہ کی وجہ سے لفظوں سے ظاہری مطلب نہ سمجھا جائے تو سیاق و سباق اور قرائن وغیرہ متکلّم کی مراد کو ظاہر کر دیتے ہیں ۔ اگر متکلّم اپنے ما فی الضمیرپر اطلاع دینے کی خاطر ایک بات کرے اور مخاطب باوجود اہل زبان ہونے کے اس کے مفہوم و مراد کو نہ اس کے الفاظ سے سمجھ سکے اور نہ قرائن وغیرہ سے تو وہ کلام سطحی ہے یا یہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے ساقط ہے ، کیونکہ کلام کے بلیغ ہونے کا یہ معنیٰ ہے کہ فصیح ہونے کے ساتھ مقتضیٰ حال کے موافق ہو۔ پھر مقتضیٰ حال مختلف ہیں کیونکہ مواضعِ کلام مختلف ہیں مثلاً بعض جگہ تنکیر مناسب ہے اور بعض جگہ تعریف۔ بعض جگہ اطلاق اور بعض جگہ تقیید، بعض جگہ لفظ کو مقدّم کرنا اور بعض جگہ موخّر ، بعض جگہ ذکر کرنا اور بعض جگہ حذف، بعض جگہ کلام کو مختصر کرنا اور بعض جگہ طویل اور بعض جگہ عطف کرنا اور بعض جگہ ترکِ عطف، یعنی جیسا محل ہے اگر ویسی کلام کی جائے تو اچھی ہے ورنہ بری۔ مثلاً اگر اختصار کا محل ہے تو کلام کو مختصر کرناچاہئے اگر طول کا محل ہے تو طول دینا چاہئے اسی طرح اگر ’ذکی‘ سے ہم کلام ہو تو اعتبارات لطیفہ مناسب ہیں ورنہ عام اور موٹی بات کرے ۔ الغرض مذکورہ بالا باتوں کی جس قدر رعایت کی جائے ، کلام اسی قدر بلیغ ہوتی ہے۔ اگر مذکورہ بالا باتوں کی رعایت نہ کی جائے تو وہ کلام بلیغ نہیں ہو سکتی۔ اس کلام سے ظاہر ہوا کہ مخاطب کی ذکاوت، غباوت کا لحاظ رکھنا مفہومِ بلاغت میں داخل ہے ۔ پس جو شخص ذکی کے ساتھ غبی کا خطاب کرے یا غبی کے ساتھ ذکی کا خطاب کرے ، وہ بلیغ نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے یہ بات نا ممکن ہے کہ ہزا رہا صحابہ حاضرین مجلس کسی آیت کے اصل مطلب سے غفلت کرجائیں اور کسی کی سمجھ میں صحیح مطلب نہ آئے ، کیونکہ اصل مخاطب وہی تھے اور انہیں کی خاطر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید عربی زبان میں اُتارا چنانچہ بالخصوص ان کو خطاب کر کے بطور احسان فرمایا : ﴿ اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ [1]
Flag Counter