مَنْشُوْرًا٭اِقْرَاْ كِتٰبَكَ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا٭مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ [1] سے واضح ہوتا ہے۔ لیکن یہ کہنا بھی درست ہے کہ دنیا میں بھی کسی قوم پر اس وقت تک عذاب استیصال نازل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی طرف کوئی رسول نہ بھیج دیا جائے کیونکہ حجت رسول سے قائم ہوتی ہے نہ کہ عقل وفطرت سے۔ یہ دو مختلف مقدمات ہیں۔ ایک یہ کہ کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں آتا جب تک اس کی طرف رسول بھیج کر اس پر حجت نہ قائم کی گئی ہو۔ عقل ، فطرت یا تاریخ کے اسباق وغیرہ کی بنیاد پر قائم حجت ایسی حجت نہیں ہے جو قوموں پر عذاب کے نزول میں ’’قطع عذر‘‘ کے درجے میں حجت بن سکے۔ اور دوسرا یہ کہ جس قوم کی طرف بھی رسول بھیجا گیا ہو، اس پر رسول کی زندگی میں ہی ضرور عذاب نازل ہوتا ہے۔ پہلا مقدمہ درست ہے اور دوسرا غلط ہے۔ اس آیت سے مراد اگر دنیا کا عذاب لیا جائے تو اس سے صرف پہلا مقدمہ ہی ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْ اُمِّهَا رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرٰى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ﴾ [2] ۹۔ آیت مبارکہ ﴿ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ﴾ [3] سے مراد قیامت کے دن رسولوں کا اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے۔﴿ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ﴾اور﴿ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ﴾ کا اسلوب بیان یہ صراحت کر رہا ہے کہ اس سے مراد آخرت کی عدالت ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کے دیگر مقامات پر آخرت کی عدالت ہی کے ضمن میں یہی اسلوب بیان وارد ہوا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں خاص طور ’’قسط‘‘ کا لفظ بھی قابل غور ہے جس کا بیان عذاب کی بجائے فیصلے کے لیے زیادہ مناسب وملائم ہے ۔ امام مجاہد رحمہ الله نے بھی اس آیت مبارکہ میں رسولوں کے آنے سے میدان حشر کی عدالت میں ان کا پیش ہونا مراد لیا ہے۔ اسی طرح دیگر آیات سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ جِايْٓءَ بِالنَّبِيّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ﴾ [4] اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ان آیات کے سیاق میں دنیاوی عذاب کا ذکر ہے تو یہاں آخرت کیسے مراد لی جا |