((الخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الخَيْرُ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ: الأَجْرُ وَالمَغْنَمُ)) [1] ’’گھوڑوں کی پیشانیوں میں اللہ نے قیامت تک کے لیے خیر لکھ دی ہے: اور وہ خیر اجر وثواب اور مال غنیمت ہے۔‘‘ اس معنی کی تمام روایات قرآن مجید کی آیت مبارکہ﴿ وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ﴾ [2] ہی کا ہی بیان ہیں۔ ۴۔ بذریعہ جہاد وقتال غیر مسلم اقوام کو مفتوح ومغلوب بنا کر ان پر جزیہ عائد کرنے کا یہ حکم نزول مسیح ابن مریم تک قائم رہے گا۔ لیکن جب ان کا نزول ہو گا تو وہ جزیہ ختم کر دیں گے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ)) [3] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام تمہارے مابین ایک عادل حکمران کی صورت میں نازل ہوں۔ پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے۔ خنزیر کو قتل کر دیں گے۔ اور جزیہ ختم کر دیں گے۔ اور اس قدر مال خرچ کریں گے کہ کوئی قبول کرنے والا نہ رہے گا۔‘‘ ۵۔ جہاد وقتال کی علت اسلام میں ایک ہی ہے اور وہ ’’ظلم وعدوان‘‘ ہے۔ اور اس کی دلیل نص صریح ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ﴾ [4] ’’جن لوگوں سے جنگ کی جاتی ہے، انہیں جہاد وقتال کی اجازت دی جاتی ہے، اس سبب سے کہ ان پر ظلم ہوا۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’باء‘‘ تعلیل کے لیے ہے۔ پس ’’ظلم وعدوان‘‘ جہاد وقتال کی وہ منصوص حکمت ہے کہ جسےکتاب وسنت نے ظلم کی متعین صورتوں کے بیان کے ساتھ علت بنا دیا ہے ۔ قرآن مجید بظاہر جن منضبط اوصاف کی بنیاد پر جہادوقتال کا حکم دیا گیا ہے وہ دراصل ’’ظلم وعدوان‘‘ ہی کی صورتیں ہیں۔ اسلام ظلم وعدوان کی کسی صورت کو کسی طور برداشت نہیں کرتا، چاہے یہ اہل ایمان پر ہو یا چاہے انسانوں پر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ عزوجل نے ’’ظلم وعداون‘‘ کے خاتمہ کےلیے ظالموں کےخلاف قتال کو مشروع قرار دیا ہے، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے: ﴿ وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا فَاِن بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ |