گے۔ پس اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ان سے جزیہ طلب کرنا۔ پس اگر وہ جزیہ دے دیں تو ان سے وہ قبول کر لینا اور جنگ سے رک جانا۔ پس اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کر دیں تو پھر اللہ کی مدد طلب کرنا اور ان سے قتال کرنا۔ ‘‘ ۳۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر فرامین میں یہ بات صراحت سے موجود ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب کو مفتوح ومغلوب کرنے کی غرض سے جہاد کا یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ((والجهادُ ماضٍ منذُ بعثني اللّٰہ إلى أن يقاتلَ آخِرُ أُمتي الدجالَ، لا يبطِلُه جَوْر جائرٍ، ولا عَدل عادلٍ)) [1] ’’جہاد اس دن سے جاری ہے کہ جس دن سے اللہ نے مجھے مبعوث کیا ہے، یہاں تک کہ میری امت کا آخری حصہ دجال سے قتال کرے گا۔ اس جہاد کو کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل منسوخ نہیں کر سکتا۔‘‘ البتہ یہ بات درست ہے کہ اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اس امت میں ہر ہر لمحے قتال ہوتارہے گا۔ اس حدیث کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ جہاد کی اجازت قیامت تک باقی رہے گی اور اسے کوئی منسوخ نہیں کر سکتا ۔ اور جہاد یہاں وسیع معنی میں ہے کہ جس میں غلبہ دین کے لیے کی جانے والی ہر کوشش شامل ہے حتی کہ قتال بھی۔ ’’منذ بعثنی‘‘ کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یہاں جہاد سے مراد محض قتال نہیں ہے جبکہ ’’یقاتل‘‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں کہ یہاں جہاد میں قتال بھی شامل ہے۔ ایک اورروایت کے الفاظ ہیں: ((إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللّٰہ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ)) [2] ’’جب تم بیع عینہ کرنے لگ جاؤ اور بیلوں کی دموں کو پکڑ لو۔ اور محض کھیتی باڑی ہی پر اکتفا کر لو اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو ایسی صورت میں اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دیں گے جسے کوئی چیز دور نہ کر سکے گی یہاں تک کہ تم اپنے دین یعنی جہاد کی طرف واپس لوٹو۔‘‘ ایک اورروایت کے الفاظ ہیں: |