Maktaba Wahhabi

102 - 114
اصطلاح اخذ کی جا سکتی ہے کہ اللہ عزوجل اس دنیا میں اپنے بندوں پر ’’حجت‘‘ قائم کرتے ہیں تا کہ قیامت والے دن ان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ یہ حجت دو طرح سے قائم ہوتی ہے، ایک رسول کی دعوت سے اور دوسرا اللہ کی کتاب سے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ آخری نبی ہیں، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد قیامت تک کے لیے اللہ کے بندوں پر اللہ کی کتاب کو’’ حجت‘‘ بنایا کیا گیا۔ ۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ مشرکین ہوں یا اہل کتاب، دونوں کے بارے اللہ کی کتاب کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ یا تو اسلام قبول کریں یا پھر جزیہ دے کر رہیں۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ﴾ [1] ’’تم قتال کروں ان لوگوں سے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو۔ اور ان اہل کتاب سےبھی قتال کرو جو دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ یہاں تک یہ لوگ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ چھوٹے بن کر رہیں۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں دو اصناف کا بیان ہے۔ پہلی قسم ان مشرکین کی ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اسے حرام قرار نہیں دیتے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو جیسا کہ سورۃ یونس 59، سورۃ النحل 116 اور سورۃ الانعام 136-140 وغیرہ میں تفصیلات موجود ہیں۔ اور دوسری قسم ان اہل کتاب کی ہے جو دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ ان دونوں سے جہاد وقتال کی غایت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ اس آیت مبارکہ سے ماقبل آیات میں شروع سورہ توبہ ہی سے مشرکین کا بیان چلا رہا ہے اور متصل قبل آیت مبارکہ 27میں ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ...﴾ کے بیان میں بھی مشرکین عرب ہی سے خطاب ہے۔ پس آیت مبارکہ 28 میں آغاز آیت ﴿ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ میں جو قتال کا حکم دیا گیا تو اس میں بھی مشرکین عرب ہی مخاطب ہیں۔ اور ان کے بیان کے ذیل میں اہل کتاب کا بھی حکم بیان کر دیا گیا۔تو ایک پہلو تو نظم قرآن کا ہوا جو اس بات کا متقاضی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں دو اصناف کا مراد لینا زیادہ بہتر ہے اور دوسرا خود آیت مبارکہ کے الفاظ ﴿ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ یہ واضح کرتے ہیں کہ ان سے مراد مشرکین عرب ہیں کیونکہ قرآن مجید نے اہل کتاب کا تعارف ایک ایسے گروہ کے طور نہیں کروایا جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہ رکھتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جن مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں جو حکم قتال بیان ہوا ہے، اسے ایک ہی صنف اہل کتاب سے متعلق کیا ہے تو انہیں یہ ثابت کرنے کے لیے بہت عجیب وغریب
Flag Counter