ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ لَا اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ﴾ [1] ’’دین میں کسی بھی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔‘‘ [2] جب اسلام کسی کو ’’دین اسلام ‘‘ قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا تو مشرکین عرب کو کیوں اس پر مجبور کیا گیا کہ وہ اسلام قبول کر لیں ورنہ تو’’اتمام حجت‘‘ کے نتیجے میں قتل کر دیے جائیں گے؟ محترم غامدی صاحب کے ’’اتمام حجت‘‘ کے قانون کو مان لینے کی صورت میں مشرکین عرب پر یہ جبر بھی ماننا پڑتا ہے۔ 11۔ عذاب یا رحمت؟ محترم غامدی صاحب کے بیان کے مطابق سابقہ اقوام پر’’اتمام حجت‘‘ کے نتیجے میں جو عذاب نازل ہوتا تھا، وہ آندھی وطوفان اور سیلاب وغرق کا تھا لیکن مشرکین عرب کے لیے ’’اتمام حجت‘‘ کی صورت میں جو عذاب نازل کیا گیا، اس کی دو صورتیں تھی: قتل یا قبول اسلام، پس عذاب کی یہ دوسری صورت وہ ہے کہ جسے رحمت اور نعمت کا نام دیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ 12۔ ’’محکوم بہ‘‘ یا ’’حکم جہاد‘‘ ؟ آخر میں ہم یہ نکتہ بھی واضح کر دیں کہ اگر ہم محترم غامدی صاحب کے ’’ اتمام حجت‘‘ کے قانون کو مان بھی لیں تو اس قانون کی ساخت اور بناوٹ ایسی ہے کہ اس کا تعلق جہاد سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے بنتا ہے کہ جن سے جہاد کیا جا رہا تھا۔ فنی زبان میں ہم اسے یوں بیان کریں گے کہ ’’اتمام حجت‘‘ کا تعلق ’’حکم جہاد‘‘ سے نہیں ہے بلکہ’’محکوم علیہ‘‘ سے ہے۔ پس ’’اتمام حجت‘‘ اور ’’مکلف‘‘ میں تعلق قائم کرنا ایک بامعنی بحث ہو گی جبکہ ’’اتمام حجت‘‘ اور ’’حکم جہاد‘‘ میں تعلق قائم کرنا کوئی معنی نہیں رکھے گا۔ خلاصہ بحث ۱۔ صحیح اور محقق بات یہی ہےکہ ’’اتمام حجت‘‘ نام کی اصطلاح کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ قرآن مجید نے اس باب میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ ’’حجت‘‘ کے ہیں۔ اور ان الفاظ کے سیاق وسباق سے ’’اقامت حجت‘‘ کی |