وہ مل سکیں گے تو عہدہ کے دوران ان کا وصول کرنا اس کے لیے جائز ہے اور جن کے بارے میں سمجھے کہ وہ صرف عہدہ کی وجہ سے مل رہے ہیں ان کا لینا حرام اورناجائز ہے،اور جن دوستوں کے تحائف کے بارے میں اسے شک ہو کہ معزولی کے بعد ملیں گے یا نہیں اسے چاہیے کہ ان سے دور رہے۔‘‘ [1] فقہائےحنفیہ نے تو ہدیہ کے بارے میں یہاں تک احتیاط کو ملحوظ رکھا ہے کہ اگر کسی قاضی کے پاس ایسے رشتہ دار یا واسطہ دار کا مقدمہ ہو جو اسے ذاتی تعلق کی بنیاد پر اس عہدے پر فائز ہونے سے پہلے بھی ہدایا دیا کرتا تھا تو اس صورت میں بھی قاضی کو چاہیے کہ اس سے بھی ہدیہ وصول نہ کرے۔ [2] ہدیہ کی مختلف صورتیں ہمارے سماج میں دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ عام طور پر کھانے پینے،پہننے اور اوڑھنے یا برتنے کی چیز کو جو ملکیت کے طور پر دی جائے، ہدیہ سمجھتے ہیں،جب کہ فقہاء کرام تو قرض،کسی چیز میں خاص رعایت اور عاریتاً کسی چیز کے دینے کو بھی ہدیہ سمجھتے ہیں۔ [3]مثال کے طور پر کچھ پیسے مہینہ یا سال دوسال کے لیے کسی کو قرض کے طور پر دیے جائیں یازیادہ قیمت والی چیز کم قیمت میں دی جائے یا گھر ،ٹی وی ،فریج ،گاڑی وغیرہ استعمال کے لیے عاریتاً دی جائے، تو فقہائے کرام ان سب چیزوں کو ہدیہ کی طرح شمار کرتے ہیں۔اس لیے حکمرانوں یا سرکاری اہلکاروں کے لیے یہ چیزیں بھی ان لوگوں سے لینا درست ہوں گی،جن سے ہدیہ لینا درست ہوتا ہے اور جن سے ہدیہ لینا درست نہیں ہوتا ان سے یہ چیزیں لینا بھی درست نہیں ہوں گی۔یہی سبب ہے کہ فقہاء کرام قاضی کے لیے بذات خود خریداری کو بھی پسند نہیں کرتے۔اسی طرح فقہاء کرام مخصوص دعوت کو بھی ہدیہ شمار کرتے ہیں۔[4] مخصوص دعوت وہ ہوتی ہے جو کسی خاص آدمی کے لیے تیار کی جاتی ہے،اگر صاحبِ دعوت کو پتہ چل جائے کہ کہ مخصوص آدمی نہیں آرہا تو وہ دعوت تیار ہی نہ کرے۔ [5]اس لحاظ سے کسی حکمران یا سرکاری اہلکار کو ایسے آدمی کی خاص دعوت میں شرکت کی اجازت ہوگی جس سے اس کے لیے تحفہ وصول کرنا جائز ہے اور جس سے تحفہ لینا درست نہ ہو اس کی مخصوص دعوت میں شریک ہونا بھی درست نہیں ہوگا،کیونکہ مخصوص دعوت کی حیثیت ہدیہ کی ہوتی ہے۔حیلہ ساز لوگ حکمرانوں اور سرکاری اہلکاروں سے کام لینے کے لیے اس طرح کے حیلے اور بہانے |