Maktaba Wahhabi

98 - 110
۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ استاد کواس کے فرض کی ادائیگی یا امتحان میں کامیاب کرانے یا امتیازی مارکس دینے کے لیے کوئی تحفہ دیا جارہا ہو تو ایسا تحفہ ایسے ہی حرام و ناجائز ہے جیسے کسی مفتی کی حمایت حاصل کرنے یا فتوے میں رعایت لینے کے لیے کوئی تحفہ پیش کیا جائے۔اور ایسا تحفہ وصول کرنا دوگنا گناہ ہے ،ایک تحفہ کے نام سے رشوت وصول کرنے کا اور دوسرا نا اہل کو آگے لانے اور اہل کو پیچھے کرنے کا گناہ ۔ [1] حکام اور امراء کے تحائف کے بارے میں مسلم مفکرین کی آراء ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ (متوفیٰ 2010ء) حکام اور امراء کے تحائف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حکام اور امراء کو مختلف لوگ ہدایا اور تحائف کے نام سے جو کچھ پیش کرتے رہتے ہیں وہ اگرچہ بظاہر ہدیہ یا تحفہ کے معصوم نام سے دیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت وہ رشوت کی ہی ایک قسم ہوتی ہے،لہٰذا جو ہدیہ صرف اس وجہ سے دیا جائے کہ متعلقہ شخص کوئی اعلیٰ سرکاری افسر،حاکمِ عدالت،یاکارندہ ہے وہ رشوت ہے اور حرام ہے۔ہاں! اگر کوئی ہدیہ ایسا ہو جو خاص اس کو دیاجانا مقصود ہو اور اس کے عہدہ کے اثر رسوخ کو دخل نہ ہوجس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ شخص اس منصب پر فائز ہونے سے قبل بھی اس شخص کے اس طرح ہدایا قبول کرتا رہا ہو تو ایسا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔‘‘ [2] مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کے بارے میں یقین ہو کہ وہ سرکاری کارندے کو اس کی ذات سے محبت اور خدا کی رضا کی خاطر تحفہ پیش کر رہا ہے تو پھر ظاہر یہی ہے کہ ایسا تحفہ اس منع والے حکم یا وعید میں داخل نہیں ہے،لیکن ایسے مخلص لوگ بہت کم ہیں،زیادہ تر نفاق اخلاص کی صورت اختیار کرتا ہے،اس لیے ہر حال میں حکام اور سرکاری اہلکاروں کو تحائف قبول کرنے سے دور رہنا ہی بہتر اور سلامتی کے قریب ہے۔‘‘ [3] امام غزالی رحمہ اللہ(متوفیٰ 505ھ) نے حکام اور سرکاری اہلکاروں کے تحائف کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بہترین اور بصیرت آموز تبصرہ کیا ہے،آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب تحائف کے بارے میں یہ سخت ہدایات ثابت ہوچکیں تو اب قاضی،والی،اور ہر سرکاری اہلکار کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے والدین کے گھر میں فرض کرے پھر جن تحائف کے بارے میں سمجھے کہ معزولی کے بعد بھی
Flag Counter