انھیں یقین ہوتا کہ وہ خوش دلی سے دے رہے ہیں۔ اور یہ بھی یقین ہوتا کہ اس ہدیہ کے پیچھے ان کی کوئی دنیاوی غرض پوشیدہ نہیں ہے۔اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ یہ بھی تھی کہ بدلے میں اس سے کئی گنا زیادہ تحفہ عنایت فرمایا کرتے تھے۔ [1] واعظ، امام مسجداور مفتی کے لیے ہدیہ قبول کرنے کی شرعی حیثیت مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ کسی حکمران یا سرکاری اہلکار کو اس کے عہدہ و منصب کی وجہ سے جو تحائف ملتے ہیں وہ حرام ہیں،مگر ایک عالمِ دین جو رضاکارانہ طور پر لوگوں کو دینی دعوت دیتا ہے،ایک مسجد کا امام جو لوگوں کی نماز میں پیشوائی کرتا ہے،اور مفتی جو دینی مسائل میں عوام کی رہبری کرتا ہے،چونکہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ و منصب نہیں ہوتا،اور نہ ہی ریاستی معاملات میں ان کا کوئی عمل دخل ہوتا ہےاور انہیں جو تحائف ملتے ہیں وہ خالص ان کی دینداری،اخلاص ،نیکوکاری اور ان میں حسنِ ظن کی وجہ سے ملتے ہیں،اس لیے فقہائے کرام کا اتفاق ہےکہ ان کے لیے ہدایا و تحائف وصول کرنا اور مخصوص دعوتوں میں شریک ہونا جائز و مستحب ہے۔[2] البتہ مفتی کے حوالے سے فقہاء کرام کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مفتی کو کسی دنیاوی غرض کی خاطر تحفہ دیتاہے،جیسے کسی شخص نے اپنے مخالف کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہوا ہے اور مفتی کا اس عدالت میں اثر و رسوخ ہے،اور وہ شخص چاہتا ہے کہ مفتی اس سلسلہ میں اس کی مدد کرے یا فتوے میں اس کے ساتھ رعایت برتےاور اس غرض کے لیے مفتی کو ہدیہ پیش کرتا ہے تو ایسے ہدیہ کا وصول کرنا مفتی کے لیے جائز نہیں ہوگا۔ [3] استاد کے لیے ہدیہ وصول کرنے کی شرعی حیثیت استاد کو ہدیہ پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں: ۱۔ ایک یہ کہ کوئی شاگرد اپنے استاد کی فرض شناسی،علمی قابلیت،ذاتی نیکوکاری سے متاثر ہوکر اپنی محبت کے اظہار اور استاد کے اعزاز و اکرام کی خاطراسے کوئی چیز تحفہ میں پیش کرتا ہے تو وہ ایسے ہی جائز اور مستحب ہے جیسے واعظ،مسجد کے امام اور مفتی کو تحفہ پیش کرنا جائز و مستحب ہے ۔ [4] |