Maktaba Wahhabi

96 - 110
امام بیہقی رحمہ اللہ (متوفیٰ 458ھ) نے اپنی السنن الکبریٰ میں نقل کیا ہےکہ ’’ ایک آدمی ہرسال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اونٹ کی ران ہدیہ میں دیا کرتا تھا،اتفاق سے اس کا ایک مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےپاس آیا تو اس نے اپنا ہدیہ یاد دلاتے ہوئے اشارتاًکہا: اے امیرالمؤمنین!ہمارے درمیان فیصلہ اس طرح کرنا جس طرح اونٹ سے اس کی ران جدا کی جاتی ہے۔فاروقِ اعظم اس کا اشارہ سمجھ گئے اور اسی وقت اپنے سب گورنروں کو لکھا کہ ہدیہ وصول نہ کیا کرو،کیونکہ وہ حقیقت میں رشوت ہوتا ہے۔‘‘ [1] حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اس کے بعد معمول یہ تھا کہ وہ اول تو تحائف وصول ہی نہیں کیا کرتے تھے،لیکن اگر وصول کرتے بھی تو انھیں بیت المال(سرکاری خزانہ )میں جمع کرا دیتے تھے۔جب ان سے کہا جاتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو تحائف وصول کیا کرتے تھے،تو آپ کیوں نہیں وصول کرتے، تو آپ جواب میں فرماتے کہ بیشک وہ تحائف تھے لیکن اب یہ رشوت ہیں۔ [2] اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ (متوفیٰ 101) نے فرمایا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحائف تھے، لیکن ہمارے لیے رشوت ہیں،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی وجہ سے تحائف ملتے تھے،حکومت کی وجہ سے نہیں،جبکہ ہمیں حکومت وریاست کی وجہ سے تحائف ملتے ہیں۔ [3] یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفیٰ 241ھ) نے فرمایا تھا کہ ’’حکومت کے کسی بھی منصب پر فائز شخص کو میں تحفہ وصول کرنے کی اجازت نہیں دوں گا،اس لیے کہ حدیث میں سرکاری اہلکاروں اور گورنروں کے تحائف کو خیانت کہا گیا ہے۔ خاص طور پر حکمران کے لیے تو میں ہرگز تحفہ وصول کرنا پسند نہیں کرتا،البتہ اس منصب پر فائز ہونے سے قبل جس آدمی سے اس کا تعلق رہا ہو اس سے تحفہ وصول کرسکتا ہے،کیونکہ وہ تحفہ ذاتی تعلق کی بنا پر ہوگا،منصب کی وجہ سے نہیں۔‘‘ [4] یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صرف ان ہی لوگوں سے تحفہ وصول فرمایا کرتےتھےجن کے بار ے میں
Flag Counter