Maktaba Wahhabi

95 - 110
رشوت ہے۔[1] اور ’غلول ‘غنیمت کے مال میں خیانت کو کہا جاتا ہے اور غنیمت کے مال میں خیانت گناہ ِ کبیرہ ہے۔ [2] ۴۔ امام بخاری رحمہ اللہ (متوفیٰ 256ھ) نے حضرت ابوحمید ساعدی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسد قبیلہ کے ایک آدمی کو جو ابنِ لُتبیہ کے نام سے مشہور تھا، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔جب وہ واپس آیا تو کچھ مال الگ کر کے کہنے لگا:حضور! یہ مال آپ کا ہے،جو زکوٰۃ میں ملا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور لوگوں کو نصیحت کرنے کے لیے منبر پر تشریف لائے۔اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:اس آدمی کا کیا حال ہے جسے میں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجتا ہوں،جب وہ واپس آتا ہے تو کہتا ہے یہ مال تمہارے لیے زکوٰۃ میں ملا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے۔بھلا وہ اپنے والدین کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھتا،پھر دیکھے کہ اسے تحائف ملتے ہیں یا نہیں۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! یہ جو چیز بھی ہماری اجازت کے بغیرلے گا قیامت کے دن اپنے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا۔‘‘ [3] اس حدیث سے واضح ہے کہ جو تحفہ، عہدہ اور منصب کی وجہ سے ملتا ہے وہ درحقیقت تحفہ نہیں ہوتا بلکہ تحفہ کے نام سے رشوت ہوتا ہے۔ ۵۔ امام مالک رحمہ اللہ (متوفیٰ 179ھ) نے مؤطا میں نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کوخیبر کے یہودیوں کی طرف خراج وصول کرنے کے لیے بھیجا ، تو انھوں نے اسے تحفہ کے طور پر کچھ مال کی پیشکش کی،تو حضرت عبداللہ بن رواحہ نے انھیں فرمایا: یہ مال جو تحفہ کے نام سے تم مجھے پیش کر رہے ہو ہم اسے رشوت سمجھتے ہیں۔ اور یہ ہمارے ہاں سخت حرام ہے اور ہم رشوت نہیں کھاتے۔ [4] کچھ لوگ بڑے تیز ہوتے ہیں،چاہے ان کا فی الفور کسی حاکم یا سرکاری کارندے سے کوئی کام نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ انھیں تحائف دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اس طرح ان کی توجہ حاصل کر لیں،اور وقت آنے پر ان سے کام لے لیں۔اس کی مثال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ سے ملتی ہےجسے
Flag Counter