’’ہدیہ قبول کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ثواب کا عمل ہے ،اس سے محبت بڑھتی ہے اور دلی لگاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ ہدیہ کب رشوت ہوتا ہے؟ اسلامی تعلیمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ ہر وہ ہدیہ جو رشتہ داری،دوستی،ذاتی تعلق،یا دینی حیثیت کی وجہ سے دیا جاتا ہوکہ جس کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی رضا ،اور باہمی محبت و الفت کا حصول ہو،اس کا لینا دینا باعثِ اجر وثواب اور باہمی محبت و الفت میں اضافے اورکینہ، حسد، بغض و نفرت کے خاتمے کا ذریعہ ہوتاہے،لیکن جو ہدیہ اس نیت سے نہ دیا جاتا ہو بلکہ اس کا مقصد مادی غرض یا دنیاوی مفاد حاصل کرنا ہو تو وہ ہدیہ حقیقت میں ہدیہ نہیں ہوتا بلکہ ہدیہ کی صورت میں رشوت ہوتا ہے۔اور یہ وہ ہدیہ ہوتا ہےجو کسی حکمران،گورنر،جج یا سرکاری ونجی ادارے کےبا اختیار ملازم کو اس کے عہدہ ومنصب کی وجہ سے دیا جاتا ہو۔اس لیے اسلام ایسے لوگوں کے لیے سوائے چند صورتوں کےباقی ہر صورت میں ہدیہ وصول کرنے کو حرام قرار دیتا ہےاور اسے رشوت شمار کرتا ہے،جیسے مندرجہ ذیل روایات اور سلف صالحین کے اقوال وکردار سے ظاہر ہے: ۱۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((هدایا السلطان سحت وغلول)) [1] ’’حکمران کے لیے تحائف وصول کرنا سُحت( سخت حرام )اور غُلول (خیانت )ہے۔‘‘ ۲۔ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((هدایا الأمراء غلول)) [2] ’’ حکمرانوں کے لیے تحائف وصول کرنا ایک قسم کی خیانت ہے۔‘‘ ۳۔ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((هدایا العمال حرام کلها)) [3] ’’سرکاری افسروں کے سارے تحائف حرام ہیں۔‘‘ ان روایات میں حکمرانوں کے تحائف وصول کرنے کو ’’سُحت ، غُلول اور حرام‘‘ کہا گیا ہے۔اور’ سُحت‘ عربی میں ہر ایسی حرام چیز کو کہا جاتا ہے جس کا نام لینا ہی برا لگے اور انسانی وقار کو مجروح کرے، اور یہاں اس سے مراد |