4۔قیاس سے آدھی دیت کا ثبوت بعض اہل علم نے وراثت اور شہادت پر قیاس کرتے ہوئے بھی عورت کی آدھی دیت پر استدلال کیا ہے۔ امام کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ولأن المرأة في ميراثها، وشهادتها على النصف من الرجل، فكذلك في ديتها. ‘‘[1] ’’چونکہ میراث اور شہادت میں عورت کا حق نصف ہے، لہٰذا اس کی دیت بھی آدھی ہوگی۔‘‘ اس قیاس میں میراث اور شہادت اصل ہیں، دیت فرع ہے، دونوں کے درمیان علت مشترکہ عورت کا مونث ہونا ہے اور نصف ہونے کی حکمت نان ونفقہ سمیت مرد کا متعدد مالی بوجھ اٹھانے کا ذمہ دار ہونا ہےجبکہ عورت ان مالی ذمہ داریوں سے آزاد ہوتی ہے۔لہٰذا مناسب یہی تھا کہ میراث کی مانند عورت کی دیت بھی آدھی ہوتی۔ دیت میں مساوات کے قائلین امام ماوردی رحمہ اللہ نے عورت اور مرد کی دیت میں مساوات کی رائے کو ابن علیہ(متوفیٰ 809ھ) اور الاصم (متوفیٰ 892ھ) رحمہم اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’دية المرأة في نفسها على النصف من دية الرجل، وهو قول الجمهور، وقال الأصم وابن علية: ديتها كدية الرجل. ‘‘[2] ’’عورت کی جان کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے، اور یہی جمہور کا موقف ہے، جبکہ ابن علیہ اور الاصم رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کی مانند ہے۔‘‘ ابن علیہ اور الاصم رحمہم اللہ کے اس اختلاف کو امام نووی رحمہ اللہ اور امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی نقل کیاہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’دية المرأة نصف دية الرجل، هذا قول العلماء كافة إلا الأصم وابن علية فإنهما قالا: ديتها مثل دية الرجل. ‘‘[3] ’’عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے، یہ ابن علیہ اور الاصم رحمہم اللہ کے علاوہ تمام اہل علم کا قول ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کی مانند ہے۔‘‘ |