امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وحكى غيرهما عن ابن علية والأصم أنهما قالا: ديتها كدية الرجل. ‘‘[1] ’’ کچھ اہل علم نے ابن علیہ اور الاصم رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ وہ عورت کی دیت کو مرد کی دیت کی مانند کہتے تھے۔‘‘ دیت میں مساوات کے قائلین کے موقف کاجائزہ اہل علم نے ابن علیہ اور الاصم رحمہم اللہ کے نظریہ مساوات کا درج ذیل دلائل سے رد کیا ہے: ۱۔ یہ ایک شاذ قول ہے، کیونکہ یہ صریح احادیثِ نبویہ اور اجماعِ صحابہ کے خلاف ہے۔اور صریح احادیث واجماع کی مخالفت کرنا ناجائز ہے۔صحابہ کرام کا اجماع ابن علیہ اور الاصم رحمہم اللہ کے پیدا ہونے سے بھی پہلے منعقد ہو چکا تھا۔ ۲۔ انہوں نے عمرو بن حزم کی جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ ایک مجمل اور عام حدیث ہے، جس کی تفصیل اور تخصیص نصف دیت والی احادیث سے ہوتی ہے۔نیز عمرو بن حزم کی حدیث میں یہ عبارت بھی موجود ہے: ’’دية المرأة على النصف من دية الرجل. ‘‘[2] ’’عورت کی دیت، مرد کی دیت سے آدھی ہے۔‘‘ جب ایک ہی کتاب میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں تو پھر نصف دیت والی روایت کو عام روایت کی مخصص سمجھا جائے گا۔ خلاصہ کلام احادیث نبویہ، آثار سلف، اجماع اور قیاس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے، اور اس کا سبب شریعت کی وہ عظیم حکمتیں ہیں جن کو سامنے رکھ کر شارع نے عورت کی نصف دیت دینے کاحکم صادر فرمایا ہے۔اس حکم کی ادائیگی میں شریعت نے ورثاء کو پہنچنے والے مالی نقصانات کو سامنے رکھا ہے اور یہ امر ہر صاحب عقل ودانش پر واضح ہے کہ عورت مالی امور کی ذمہ داریاں اٹھانے میں کبھی مرد کے برابر نہیں ہو سکتی ہے۔ عورت کی دیت نصف ہونے کے حوالے سے اس میں کوئی عورت کی توہین یا استخفاف نہیں بلکہ یہ عدل ہے کہ شریعت نے یہاں عورت کی ذات کو سامنے نہیں رکھا بلکہ اس کےورثاء کو پہنچنے والے مالی نقصان کا اندازہ کرتے ہوئے اسے پورا کرنے کے لیے یہ حکم جاری فرمایا ہے۔ |