Maktaba Wahhabi

87 - 110
المقدسی رحمہ اللہ[1] نے اس پر تمام اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سلف و خلف اہل علم میں سے کوئی بھی اس حکم کا مخالف نہیں ہے اور سب کا اتفاق ہے کہ عورت کی دیت، مرد کی دیت کا نصف حصہ ہے، جو کہ 50اونٹ بنتے ہیں۔ عورت کو قتل کرنے والا خواہ مرد ہو، عورت ہو یا ایک جماعت ہو، ورثاء کی جانب سے دیت اختیار کرلینے کی صورت میں آدھی دیت ہی دینا ہوگی۔‘‘ [2] ابوبکر ابن منذر رحمہ اللہ (متوفیٰ 733ھ) فرماتے ہیں: ’’تمام فقہاءکا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے۔ ‘‘ [3] اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (متوفیٰ 456ھ)فرماتے ہیں: ’’تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ قتل خطا میں 100 اونٹ دیت ہے جبکہ عورت کی دیت 50 اونٹ ہے۔‘‘ اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 725ھ)نے بھی اس اجماع کی تائید کی ہے۔[4] اِمام ابوالقاسم الخرقی رحمہ اللہ (متوفیٰ 334ھ)فرماتے ہیں: ’’آزاد مسلمان عورت کی دیت آزاد مسلمان مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے۔‘‘ [5] شیخ ربیع مدخلی، محمد الغزالی رحمہم اللہ کی مذکورہ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فقہاء اُمت اور محدثین کرام رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان عورت کی دیت مسلمان مرد کی دیت کا نصف حصہ ہے، جبکہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ اپنی لاعلمی میں اس متفق علیہ حکم کو فقط محدثین رحمہم اللہ کی جانب منسوب کررہے ہیں، تاکہ ان پر جھوٹ اور مخالفتِ قرآن کی تہمت لگا سکیں ،لیکن اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کی غلطی کو کھول دیا ہے تاکہ عام مسلمان اس گمراہ کن موقف سے بچ سکیں۔‘‘ [6]
Flag Counter