۱۔ حدیث عموم بلویٰ کے مخالف نہ ہو۔ ۲۔ قیاس کے مخالف نہ ہو۔ ۳۔ کبار صحابہ اس کی مخالفت نہ کریں۔ ۴۔ راوی اپنی روایت شدہ خبر کا انکار نہ کرے، اس کے مخالف عمل نہ کرے، اس پرعمل نہ چھوڑے، اس کے کسی ایک مفہوم کو متعین نہ کرے۔ ۵۔ عام صحابہ کرام اس حدیث کو جانتے ہوئے اس پر عمل ترک نہ کریں یا اس کے خلاف عمل نہ کریں اور بعد میں محدثین بھی اس خبر پر اعتراض نہ کریں۔ [1] بعض احناف کی رائے میں قرآن مجید یا خبر متواتر سے ثابت شدہ حکم اگر عام ہے تو اس کی تخصیص خبر واحد سے نہیں ہوسکتی ۔ خبر واحد کے ذریعے کتاب کے کسی حکم پر اضافہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس خبر کی وجہ سے ظاہر کتاب کو چھوڑا جاسکتا ہے او رنہ منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل متن ہے او راس کے معنیٰ فرع ہیں اور قرآن کا متن سنت کے متن سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کے ثبوت میں کوئی شبہ نہیں، لہٰذا قرآن کو ہر لحاظ سے خبر واحد پر ترجیح دی جائے گی۔ [2] مالکیہ کی زائد شرائط بعض مالکی علمائے اصول کے نزدیک نفس خبر میں ایک مزید شرط یہ ہے کہ وہ اہل مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو، اس لیے وہ مندرجہ ذیل حدیث پر عمل نہیں کرتے کیونکہ اہل مدینہ اس پر عمل نہیں کرتے تھے: ’’المتبایعان بالخیار ما لم یفترقا. ‘‘[3] ’’مشتری و بائع کو چیز کی واپسی کا اس وقت تک اختیا رہے جب تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوتے۔‘‘ تبصرہ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان رحمہ اللہ (متوفیٰ 2014ء) جو عراق کے ایک معروف وکیل اور معتدل مزاج حنفی عالم تھے، خبر واحد کی قبولیت کی متفق علیہ شرائط خمسہ پر اضافی شروط کے حوالے سے رقمطراز ہیں: ’’ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حنفی اور مالکی فقہا نے یہ شرائط سنت کی صحت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی |