۴۔ متن حدیث میں کوئی شذوذ نہ پایا جائے۔ متن میں شذوذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عادل ضابط راوی کوئی ایسی بات کہے جو اوثق یا ثقات یعنی معیار یا تعداد میں اس سے زیادہ ثقہ راوی کی روایت کے خلاف ہو۔ ۵۔ متن حدیث میں کوئی علت نہ ہو۔ سند ومتن میں کسی علت کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی ایسا اشکال نہ پایا جائے جو حدیث کو نا قابل اعتبار بنا دے، چاہے وہ بظاہر قابل قبول نظر آتی ہو۔ [1] شافعی علما خبر کی سند میں یہ شرط لگاتے ہیں کہ خبر مرسل نہ ہو لیکن اگر مراسیل کبار تابعین مثلاً سعید بن المسیب رحمہ اللہ (متوفیٰ 94ھ) اور حسن بصری رحمہ اللہ (متوفیٰ 110ھ) کی ہوں تووہ قبول کی جائیں گی۔ کبار تابعین کے علاوہ دوسرے تابعین کی روایات قبول نہیں کی جائیں گی۔ابن حزم رحمہ اللہ بھی اس شرط میں شافعیہ کے موقف کے حامی ہیں ۔ [2] قبولیت خبر واحد کیلئے حنفیہ کی اضافی شرائط 1۔راوی سے متعلق شرائط متاخرین احناف راوی میں سابقہ شرائط کے علاوہ راوی کے معروف ہونے کی شرط بھی لگاتے ہیں۔ ان کے نزدیک معروف سے مراد ایسا راوی ہے جس کو فقہا جانتے ہوں اور اس کے حالات پردۂ اخفاء میں نہ ہوں۔پھر وہ معروف راوی کودو اقسام: معروف فی الفقہ ، غیر معروف فی الفقہ میں تقسیم کرتےہیں۔ اوّل الذکر سے مراد ایسا راوی ہے جو صرف الفاظ حدیث کا حافظ نہ ہو، بلکہ اس کے مفہوم کو بھی سمجھتا ہو اور ثانی الذکر سے مراد ایسا راوی ہے جو صرف الفاظ حدیث کا حافظ ہو۔ خلفاء اربعہ، عبادلہ صحابہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور کئی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک فقیہ ہیں لیکن ان میں سے بعض کہنا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک غیر فقیہ ہیں۔ اس لیے اوّل الذکر کی حدیث بلا تحقیق قبول کی جائے گی لیکن ثانی الذکر کی حدیث کو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ قیاس کے مخالف ہوئی تو ردّ کی جائے گی اور اگر موافق ہوئی تو قبول کی جائے گی۔ [3] 2۔متن سے متعلق شرائط متن حدیث کے بارے میں احناف کے نزدیک شرائط یہ ہیں: |