دیانت وامانت اور خزانوں کے عہدے یمن والوں کے پاس ، مگر اس حدیث کے راوی صرف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری حدیث میں اس مضمون کی تائید ہے کہ خلافت کے عہدے قریش کے پاس ہونے چاہئیں اور اس حدیث کے راوی بھی اکیلے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ہیں۔ اسی طرح اور بھی بعض احادیث میں فضائل قریش مذکور ہیں مگران سب احادیث کے راوی آحاد ہی ہیں ۔ ۳۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پُرملال کے بعد آپ کی جانشینی اور خلافت کا مسئلہ جب درپیش ہوا تو انصار نے اپنا ایک اجلاس بلایااور سعد بن عبادۃ کو اپنا امیر منتخب کرنا چاہا۔ اورمہاجرین میں سے بھی بعض نے کہا کہ ہمارا پنا امیر ہوگا۔ اس وقت مہاجرین میں سےکبار صحابہ آگے بڑھے او رقریش کے فضائل جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول تھے وہ انصار کو سنائے۔ اور انصار نے وہ فضائل سننے کے بعد مہاجرین سے اتفاق کیا اور اپنا امیر الگ چننے کے بجائے قریشی امیر پر راضی ہوگئے۔ اور پھر سب مہاجرین او رانصار نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پس فضائل قریش کی احادیث آحاد ہیں اور مہاجرین نے ان کو سند بنایا او رانصار نے سن کر انہیں قبول کیا۔اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی صحابہ نے خبر واحد کو قبول کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ پس خبر واحد کی حجیت صحابہ کے مابین بھی اتفاقی تھی کہ کسی نے اختلاف نہیں کیا تھا کہ یہ اخبار سب آحاد ہیں، ہم انہیں نہیں مانتے۔ اور ان کے ہاں اس پر عمل تواتر کا درجہ اختیار کر گیا تھا اور اسی طرح ائمہ مجتہدین کا بھی خبر واحد کی حجیت پر اتفاق ہے۔ خبر واحد کی قبولیت کی شرائط جمہور علماء نے خبر واحد میں شبہ کے امکان کی وجہ سے اس کی قبولیت کے لیے مختلف اقسام کی شرطیں لگائی ہیں، ان میں سے کچھ شرائط راوی سے متعلق ہیں او ربعض نفس خبر کے بارے میں ہیں۔ ان میں سے بعض شرائط پر تمام علماء اصول متفق ہیں اور کچھ میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ خبر واحد کو قبول کرنے کی متفق علیہ شرطیں درج ذیل ہیں: ۱۔ اس کی سند متصل ہو۔ اتصال سند سے مراد یہ ہے کہ وسط سند میں کوئی راوی ساقط نہ ہو ، بلکہ اس کی کڑیاں شروع تا آخر ملی ہوئی ہوں۔ ۲۔ اس کا ہر راوی عادل ہو۔ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عاقل اور بالغ مسلمان ہو۔ جن چیزوں کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے، ان پر عمل کرتا اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے بچتا ہو۔ کسی گناہِ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو اور صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو۔ اور جو چیزیں اخلاق حسنہ کے منافی ہوں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہو۔ ۳۔ اس کا ہر راوی ضابط ہو۔ ضابط کا معنیٰ یہ ہے کہ پہلے راوی سے اس نے جو بات سنی وہ اسے اپنے سینے یا سفینے میں (لکھ کر) اس طرح محفوظ کرے کہ اسے اگلے راوی تک منتقل کر دے اور جب چاہے اسے بیان کر سکے۔ |