Maktaba Wahhabi

71 - 110
نسبت کے بارے میں پورا اطمینان حاصل کرنے کے لیے لگائی ہیں۔ تاہم اس بارے میں ان کا قول مرجوح ہے اور دوسروں کا راجح۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب ایک حدیث کی روایت صحیح ہو، یعنی اس کو عادل، معتبر اور ان لوگوں نے روایت کیا ہو جن کا حافظہ قوی ہو، تو اس کا اتباع کرنا، اس کو قبول کرنا اور اس سے احکام مستنبط کرنا ہم پر لازم ہے۔ خواہ یہ عمل اہل مدینہ کے موافق ہو یا مخالف، خواہ یہ مقررہ أصول اور قیاس کے تقاضے کے مطابق ہو یا نہ ہو، خواہ اس کے راوی کا اس پر عمل ہو یا نہ ہو، اور خواہ وہ کسی ایسے واقعہ کے بارے میں ہو جو کثرت سے پیش آتا ہے یا کبھی کبھی۔ اہل مدینہ پوری اسلامی امت کا ایک حصہ ہیں، پوری امت نہیں ہیں۔ اسی طرح راوی کی روایت کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے عمل کا، کیونکہ کبھی وہ اپنی روایت کی ہوئی حدیث کے خلاف غلطی سے یا بھول کر یا کسی تاویل سے عمل کرتا ہے، وہ معصوم نہیں ہے۔ اور یہ بات کہ حدیث میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ تو کثرت سے پیش آنے والا ہے، حالانکہ اس کو چند افراد نے ذکر کیا ہے، اس کا اخبار آحاد کے قبول اور رد کرنے میں کوئی اثر نہیں ہے، کیونکہ جو واقعہ کثرت سے پیش آتا ہے اس بارے میں حکم معلوم کرنے کی ایسی ہی ضرورت ہے جیسی اس واقعہ کے بارے میں ضرورت ہے جو کبھی کبھی پیش آتا ہے۔ اور ان دونوں کو نقل کرنے والے آحاد (چند افراد) ہی ہوتے ہیں نہ کہ کثیر تعداد۔ کثرت وقلت اس بارے میں کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ نیز یہ دلیل بھی اطمینان بخش نہیں ہے کہ جو سنت اصول کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں ہےکیونکہ اصول تو خود سنت سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اگر کسی سنت میں ایسا حکم موجود ہو جو ثابت شدہ اصول کے خلاف ہو تو یہ خود اپنی ذات میں ایک اصول ہے جس پر اس کے دائرہ میں عمل کیا جائے گا، جیسے بیع سلم پر ہم عمل کرتے ہیں، حالانکہ یہ ایک معدوم شے کی بیع ہے۔ اگر ہم اس قسم کی احادیث کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوگی کہ ایسی آحاد حدیثیں جن کی سند صحیح ہے لیکن ان کو اس لئے رد کر دیا گیا کہ وہ اصول کے خلاف ہیں، در حقیقت وہ اصول کے موافق ہیں، مخالف نہیں ہیں۔ اس بنا پر جمہور کا قول ہی قابل ترجیح ہے، چنانچہ جس سنت کو ایسے راویوں نے روایت کیا ہو جو ثقہ ہوں اور جن کا حافظہ قوی ہو، اس کا قبول کرنا لازم ہے ۔اور اس کی قطعاً پرواہ نہیں کرنا چاہئے کہ کیا چیز اس کے مخالف ہے اور کسی شخص نے اس کی مخالفت کی ہے ،وہ شخص خواہ کوئی بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے نبی کی سنت کی پیروی کا حکم دیا ہے اور ہمارے پاس سنت تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے سوائے راویوں کے راستے کے۔ جب ہمارے نزدیک ان راویوں کی قوت حافظہ اور عدالت اور ان کی ترجیح ثابت ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سنت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہے خواہ اس کا علم قطعی ہو یا ظنی ، ان دونوں صورتوں میں شرعاً اس حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘ [1]
Flag Counter