اب قرآنی ترتیب کے مطابق ہر ہر آیت کی تفسیر مرتّب کی جانے لگی۔ اس میں حسب ِ ذیل علماء نے حصہ لیا:امام ابن ماجہ رحمہ اللہ ( متوفیٰ273ھ)، بقی بن مخلد قرطبی (متوفیٰ276ھ)، ابن جریرطبری (متوفیٰ310ھ )،ابو بکربن منذر نیشاپوری (متوفیٰ318ھ )،ابن اَبی حاتم (متوفیٰ327ھ )،ابو الشیخ ابن حبان (متوفیٰ369ھ) ، امام حاکم (متوفیٰ405ھ )اور ابو بکر بن مردویہ (متوفیٰ410ھ ) رحمہم اللہ وغیرہ۔ یہ تمام تفاسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ، تابعین واتباع تابعین سے بالاسناد منقول ہیں۔ ان میں تفسیر بالماثور کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ اس دَور کی جس تفسیر کو شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہوا وہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی تفسیر ’’جامع البیان‘‘ ہے، جو تفسیر بالماثور کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اس میں تفسیری اقوال ذکر کرکے ان کی توجیہ کی اور بعض کو راجح اور دوسروں کو مرجوح قرار دیا ہے۔ جہاں ضرورت پڑی وہاں بعض کلمات کی اعرابی حالت بھی بتائی ہے، جن آیات مبارکہ سے احکام کا استنباط ممکن تھا ان سے شرعی احکام اخذ کیے ہیں۔ اس دَور میں ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (متوفیٰ223ھ )نے لغوی اور عقلی زاویہ نظر سے، علی بن حسن بن فضال رحمہ اللہ (متوفیٰ 224ھ )نے شیعی نقطۂ نظر سے، ابو سہل بن عبد اللہ تستری رحمہ اللہ (متوفیٰ 283ھ) نے متصوفانہ اسلوب سے، ابو علی جبائی رحمہ اللہ (متوفیٰ303ھ) نے معتزلی نقطۂ نظر سے، ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (متوفیٰ324ھ) نےاشعری، ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ (متوفیٰ 333ھ) نے ماتریدی زاویۂ نگاہ سے تفسیریں لکھیں۔ پانچویں صدی ہجری میں علامہ ابن فورک رحمہ اللہ(متوفیٰ406ھ) نے کلامی انداز میں ’’معانی القرآن‘‘، ابو عبد الرحمٰن سلمی رحمہ اللہ (متوفیٰ412ھ) نے صوفیانہ اسلوب سے ’’حقائق التفسیر‘‘، ابو اسحاق احمد بن محمد ثعلبی رحمہ اللہ (متوفیٰ 427ھ) نےلغوی وفقہی طریقے سے’’ الکشف والبیان فی تفسیر القرآن‘‘ اور ابو جعفر طوسی رحمہ اللہ (متوفیٰ460ھ) نے شیعی نقطۂ نظر کے موافق ’’البیان فی تفسیر القرآن‘‘ کے نام سے کتبِ تفسیر لکھیں۔ ان میں مؤخّر الذکر کتاب خاصی ضخیم ہے اور بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس مرحلے میں تفسیر کے حدیث نبوی سے جدا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے قبل تفسیر کے سلسلہ میں جو مساعی سرانجام دی گئی تھیں، وہ سب رائیگاں ہو گئیں بلکہ تفسیر کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ ابتدائی مرحلہ میں تفسیری اقوال بطریق اخذ وروایت نقل کیے جاتے تھے۔ دوسرے مرحلہ میں تفسیر کی تدوین ابوابِ حدیث کے ایک باب کے اعتبار سے کی جانے لگی اور تیسرے مرحلے میں ایک مستقل علم کی حیثیت سے جداگانہ طور پر تفسیر کی تدوین کا آغاز ہوا۔ مگر ایسے محدثین رحمہم اللہ بھی تھے جو اس مرحلہ میں بھی تفسیری اقوال کو حدیث کے ایک باب ہی کے ضمن میں جمع کرتے رہے، اس میں ان کا دار ومدار فقط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین سے منقول احادیث وآثار پر تھا۔ |