Maktaba Wahhabi

97 - 117
ماضی اور حال کے تقاضوں اور مطالبات کی محض ایک ظاہری آویزش نہیں ہے جو وقت کے ساتھ خود دور ہوجائے گی بلکہ یہ دو متصادم اخلاقی نظریوں کی ٹکر ہے جن میں سے ایک کی فتح دوسرے کی شکست کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اس فتح وشکست سے پہلے لازمی ہے کہ اس پوری قوم کے اندر ایک شدید ذہنی خلفشار برپا ہو جو بالآخر ایک سخت ہل چل پر منتہی ہو۔ اس پر مزید مستزاد یہ کہ یہ نئے سانچے عین اسلام ہیں۔ یہ رقص و ناچ اسلامی ناچ ہے۔ یہ عورتیں اس لئے ناچتی ہیں کہ یہ اسلام اور تہذیب اسلامی کا احیا ہے۔ یہ پردہ تومولویوں کی ایجاد ہے، یہ عورتوں پر’غیرت‘ کو مرد کی علامت بنا کر پابندیوں کو راہ دی گئی ہے۔ اسلامائزیشن کے نام پر عورتوں کو چادر اور چار دیواری کے پیچھے دھکیلنا غیر انسانی ہے۔ اسلام کے نام پرعورتوں کے لئے امتیازی قوانین پاس کرنا، بین الاقوامی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے، اس لئے ان قوانین کو کالعدم کردیناچاہئے۔ خلاصہ کلام مسلمان عورت دوراہے پرہے، وہ کون سی راہ اختیار کرے؟ وہ دونوں راہوں کے سنگریزے دیکھ دیکھ کر اسلام کی پہچان کی کوشش میں اَدھ موئی ہو چکی ہیں۔کبھی وہ عورت کے نسائی اور گھریلو کردار کو اسلام کی تعبیر قرار دیتی ہیں اور کبھی وہ ترقی اور معاشی استحکام کو اسلام کا تقاضا جان کر اسلامی معاشروں کے روایتی نسوانی کردار سے نفرت کو اپنے دل میں جگہ دیتی ہیں۔کبھی وہ مغرب کی عورت کو حسینی نگاہوں سے دیکھتی ہیں تو کبھی اسے نسوانیت کی تذلیل قرار دیتی ہیں۔کبھی وہ اپنے ملی وقومی مفادات کے تقاضوں کو جانچنے کی کوشش کرتی ہیں تو کبھی اپنی فطری نزاکتوں وکمزوریوں کو معاشرے میں تولنے لگتی ہے۔ اپنے لیے کسی بھی راہ کے شعوری انتخاب کے باوجود بھی وہ احساسِ طمانیت سے خالی ہیں، ایسے میں اس کے حقوق کے نعرے اور اسلام کی تعبیر نوکا غلغلہ انتہائی کشش کا باعث ہے!! مسلمان عورت کے لئے یہ مسئلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر اسلام اسے بہت سے حقوق دیتا ہے تو مختلف معاشروں کے رسم ورواج میں گھر کر مرد وں سے اسے یہ جائز حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے۔ مسلم حکومتیں قرآن وسنت میں ان کو ملنے والے جائز حقوق پر مسلمان مردوں کو تعلیم و تربیت دینے کی بجائے ان کے لئے اصلاح کا جو ماڈل تجویز کرتی ہیں، وہ بھی مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب سے رہنمائی لیتا ہے۔یہ امر شک وشبہ سے خالی نہیں کہ اسلام نے خواتین کو متعدد حقوق دیے ہیں، لیکن خواتین کو یہ حقوق موجودہ معاشروں میں حاصل نہیں ہورہے۔ اور مسلم خواتین کی یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک قرآن کریم اور فرامین نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیا گیا مقام اُنہیں حاصل نہیں ہوجاتا۔ ا س لحاظ سے عورتوں کے یہ جائز حقوق مسلمان مردوں اور مسلم حکومتوں پر ایک گراں مایہ قرض ہیں، جس کی پاسداری کرکے ہی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں روز آخرت سرخ روئی حاصل کرسکتے ہیں۔
Flag Counter